میدانوں میں کبھی ایک قبیلہ بستا تھا۔ اس قبیلے کا نام تھا بورجیگن اور اس کے سردار کا نام تھا یسوگئی۔ تقریبا ساڑھے آٹھ سو سال پہلے کی بات ہے کہ اس قبیلے کی تاتاری قبائل سے جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں ایک اہم تاتاری جنگجو تموجن گرفتار ہوگیا۔ زنجیروں میں جکڑا تموجن بورجیگن قبیلے کے سردار کے سامنے پڑا تھا۔ ایسے میں یسوگئی کو یہ اطلاع ملی کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے۔ یسوگئی نےاسی قیدی کے نام پر اپنے بیٹے کا نام تموجن رکھ دیا۔ تموجن جب پیدا ہوا  تو اس کے ہاتھ میں خون کا ایک لوتھڑا تھا۔ لیجنڈ ہے کہ قبیلے کے بوڑھوں کو جب اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے کہا کہ ایک دن آئے گا یہ لڑکا عظیم فاتح بنے گا اور تاریخ نے ثابت بھی یہی کیا۔ یہ کہانی ہے اسی بچے تموجن کی جسے آج دنیا چنگیز خان کے نام سے جانتی ہے۔

Figure.1

 دریائے اونان منگولیا سے بہتا ہوا روس میں داخل ہوجاتا ہے۔ 818 کلومیٹر طویل اس دریا کے دونوں طرف گھاس کے وسیع و عریض میدان اور سرسبز پہاڑیاں ہیں۔ صدیوں پہلے اسی دریا کے کناروں پر منگول قبائل رہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ سب منگول کسی دریا کے کنارے رہنے والے ایک بھیڑیے کی اولادیں ہیں۔ ساڑے آٹھ سو برس پہلے کی بات ہے کہ اسی دریائے اونان کے کنارے، ایک منگول گھڑ سوار اپنے شکرے یعنی فیلکن کے ساتھ شکار کھیل رہا تھا۔ یہ بورجیگن قبیلے کا سردار یسوگئی تھا۔شکار کے دوران اچانک اس کی نظر ایک چھکڑے پر پڑی۔ جس کو ایک اور منگول قبیلے مرقد کا ایک شخص لے جا رہا تھا۔ یسوگئی چھکڑے کے قریب ہوا ہے تو اس نے دیکھا کہ چھکڑے میں ایک سولہ سالہ لڑکی بیٹھی ہے۔ اس کے دل کو یہ لڑکی ایسی بھائی کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے بے قرار ہوگیا۔ یسوگئی نے اپنے دو بھائیوں کے ساتھ اس شخص پر دھاوا بول دیا۔ مرقد قبیلے کا یہ شخص  مقابلے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔ سو اس نے اس لڑکی کو جو کہ اس کی بیوی تھی وہیں چھوڑا اور بھاگ نکلا۔

یہ لڑکی جو اب یسوگئی کے قبضے میں آ گئی تھی۔ دراصل ایک اور قبیلے الخوند سے تعلق رکھتی تھی اور اس کا نام ہوئلن تھا۔ یسوگئی نے اپنی خواہش کے مطابق اس سے شادی کرلی۔ گیارہ سو باسٹھ کی بات ہے کہ اسی یسوگئی کے ہاں ہوئلن کے بطن سے ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام تموجن رکھا گیا۔ تموجن کا لفظی مطلب  ہے لوہار، یہ شمال مشرقی منگولیا کا وہ علاقہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہیں چنگیز خان کی پیدائش ہوئی تھی۔

  جس وقت کی یہ بات ہے اس وقت منگول قبائل بہت پسماندہ ہوا کرتے تھے۔ وہ خانہ بدوشی کی زندگی گزارتے تھے۔ کبھی اس چراہ گاہ تو کبھی اس پہاڑی کے دامن میں رہتے تھے۔ جہاں کھانا اور چارہ بہتر نصیب ہو جائے وہی ان کا ٹھکانہ ہوتا تھا۔ وہ شکار میں اتنے ماہر تھے کہ گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے تیر چلا کر اپنے دشمن کو ڈھیر کردیا کرتے تھے۔ اسی طرح ننھا تموجن بھی بچپن ہی میں گھڑسواری اور تیر اندازی میں طاق ہو گیا۔ جب وہ نو برس کا ہوا تو اس کے باپ نے اس کی منگنی اوینگرات قبیلے میں جاکر وہاں کی ایک دس سالہ لڑکی بورتے سے کر دی۔ یسوگئ نے  منگنی کے بعد تموجن کے ہونے والے سسر کی درخواست پر اسے انہی کے قبیلے میں کچھ دن کے لیے چھوڑا  اور خود گھر کو لوٹ گیا۔ لیکن واپس جانے سے پہلے اس نے انہیں ہدایت کی کہ وہ  تموجن کا ذرا خیال رکھیے گا اسے کتوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ اپنے نوعمر بیٹے کی منگنی کے بعد یسوگئ بڑی خوشی خوشی اپنے پڑائو کی طرف واپس جا رہا تھا کہ اسے راستے میں شدید پیاس لگی۔  کچھ تلاش کے بعد  اسے ایک جگہ کچھ منگول دعوت اڑاتے ہوئے نظر آئے۔ یہ تاتاری قبیلے کے لوگ تھے جن سےیسوگئی کی دشمنی چل رہی تھی۔ لیکن اس نے سوچا یہان مجھے کون پہچانے گا۔ چند گھونٹ پانی پینے اور پیٹ بھر کھانا کھانے کے بعد نکل جاؤں گا۔ چنانچہ وہ ان لوگوں کی دعوت میں شامل ہوگیا۔ منگولوں میں اجنبیوں کو بھی اپنی دعوتوں میں شریک کرنے کا رواج تھا۔ لیکن یہ یسوگئ کی خام خیالی تھی کہ اسے کوئی نہیں پہچانے گا۔ دعوت میں ایک آنکھ نے اسے دیکھا اور پہچان لیا اور چپکے سے یہ راز کچھ اور لوگوں کو بھی بتا دیا۔ اب اسے حملہ کرکے مارنے کے بجائے انہوں نے محفوظ  کھیل کھیلا اور اس کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ یسوگئ اپنی طرف سے  پر لطف دعوت اڑا کر وہاں سے نکل گیا۔ مگر راستے میں اس کی حالت بگڑنے لگی اور وہ بات سمجھ گیا۔ زہر اپنا اثر دکھانے لگا تھا۔ پھر بھی وہ کسی طرح گھرپہنچ گیا۔ زہر کھانے کے تیسرے دن اس نے اپنے خیمے میں آخری سانس لیا۔ لیکن مرنے سے پہلے اپنے لوگوں کو بتا دیا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا، کیا پیش آیا ہے اور کہاں پیش آیا۔

یسوگئی کی موت کے ساتھ ہی قبیلے کی سردار ی کا مسئلہ بھی کھڑا ہو گیا۔ اس کا چھوٹا سا خانہ بدوش قبیلہ تھا۔ مگر روایات کا اسیر تھا۔ وہ صرف اسی کو سردار مانتے تھے جو اپنی طاقت اور صلاحیت سے خود کو سردار منوا بھی لے۔ تو اس کے قبیلے کے لوگ یسوگئ کی بیوی اور چھوٹے بچوں میں سے کسی کو بھی سردار ماننے پر تیار نہیں تھے۔ بلکہ وہ جلد ہی انہیں چھوڑ کر جانا شروع ہو گئے۔ اس  وقت تک تموجن بھی اپنے سسر کے گھر سے واپس آ چکا تھا۔ اس نے اور اس کی ماں نے  قبیلے والوں کو روکنے کی کوشش کی  لیکن چند وفاداروں کے علاوہ کسی کو نہ روک سکے۔ پیچھے بچ جانے والے چند لوگ اب دریا کے کنارے کنارے رہنے لگے۔ اور وہیں سے کچھ کھا پی کر یا پرندوں کا شکار کھیل کر دن گزارنے لگے۔ وہ لکڑی اور نوکیلی ہڈیوں سے تیرے بناتے اور چوہوں  اورکتوں کی کھالوں سے بنے کپڑے پہنتے تھے۔ تموجن کے خاندان کے لیے یہ بہت مشکل وقت تھا۔ اور انھیں مشکلات نے تموجن کو سخت جان بنا دیا اور ساتھ میں پتھر دل بھی۔

خوراک  کے حصول اور خطروں سے کھیلنے کے دوران وہ اتنا بے رحم ہو گیا تھا کہ ایک دن اپنے سوتیلے بھائی بیکتر سے الجھ پڑا۔ حالانکہ بات صرف اتنی تھی کہ اس کے بھائی نے اس کا شکار کیا ہوا پرندہ اٹھا لیا تھا۔ وہ اتنا  سنگدل ہو چکا تھا کہ جب اس کے بھائی نے دوسری بار اس کی مچھلی اٹھائی ہے تو اس نے اسے تیر مار کر ہلاک کر دیا۔ تموجن اپنے سگے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ اس کے دو سوتیلے بھائی بھی تھے جن میں سے ایک کو تو وہ پہلے ہی قتل کر چکا تھا۔ تو تموجن نوجوانی میں ہی اپنے خاندان کا سربراہ بن گیا تھا۔ اس کی صلاحیتیں اور لڑائی کے جوہر آتے جاتے لوگ دیکھ رہے تھے۔ اور یہی آتے جاتے لوگ اس کے بچھڑے ہوئے قبیلے والوں سے ملتے تو بتاتے کہ یسوگئ کا  بیٹا تموجن بہت پرپرزے نکال رہا ہے۔ اور وہ خاصے کی چیز بن رہا ہے۔

Figure.2

ہوسکتا ہے کسی وقت وہ سرداری واپس لینے کی کوشش بھی کرے۔ شاید یہی خدشہ تھا کہ ایک روز اسی کے قبیلے کے لوگوں نے تموجن کے عارضی سے کیمپ پر حملہ کر دیا۔ لیکن تموجن اور اس کے ساتھی بالکل بے خبر نہیں تھے۔ انہوں نے کیمپ کے گرد مظبوط باڑ نما دیوار بنا رکھی تھی۔ اسی باڑ کے پیچھے پوزیشن لے کر انہوں نے کچھ دیر حملہ آوروں کو روکے رکھا۔ حملہ آور بھی کوئی بہت زیادہ تعداد میں نہیں تھے، سونے لمبے مقابلے کے بجائے مطالبہ کیا گیا کہ اگر صرف تموجن کو ان کے حوالے کر دیا جائے تو وہ باقی لوگوں کو کچھ نہیں کہیں گے۔ لیکن کیمپ میں سے کسی ایک نے بھی اس مطالبے کو نہیں مانا۔

لیکن اس بات چیت کے دوران تموجن کو فرار ہونے کا موقع مل گیا۔ وہ ایک گھوڑے پر سوار ہو کر کیمپ کے پیچھے سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگ نکلا۔ حملہ آوروں نے اسے بھاگتے دیکھا تو کیمپ کا محاصرہ ختم کرکے اس کے پیچھےلپکے۔ اب تموجن آگے اور دشمن پیچھے پیچھے تھا۔ اس کی جان کو سخت خطرہ تھا۔ لیکن وہ پھر میں کسی نہ کسی طرح ان سے بچ کر جنگل میں ان سے پہلے پہنچ گیا۔ اس کے دشمنوں نے جنگل کے اس حصے کو گھیر لیا اور انتظار کرنے لگے کہ کب بھوک پیاس سے نڈھال ہو کر باہر نکلے اور وہ اسے پکڑؑ لیں۔ دی سیکرٹ ہسٹری آف منگولز کے مطابق تموجن نے بغیرکچھ کھائے پیئے  پہلے تین دن اور تین راتیں اسی جنگل میں گزار دیں۔

 چوتھے روز اس نے باہر نکلنے کا سوچا۔لیکن جب وہ نکلنے لگا تو گھوڑے کے زین گر گئی۔ اس نے اسے ایک غیبی اشارہ  سمجھا کہ اسے ابھی جنگل سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ وہ پلٹا اورواپس وہیں جا کر دوبارہ چھپ گیا۔ وہ اگلے تین دن بھی وہیں دبک کربیٹھا رہا۔ وہاں کچھ بھی ایسا نہیں تھا جو ایک انسان رغبت سے کھا سکے۔ نہیں معلوم وہ وہاں کیسے پیٹ بھرتا رہا، پتے کھاتا رہا، درختوں کی کھال چباتا رہا یا شاید کچھ  اور۔۔ جو بھی تھا اس دوران اس نے زندگی کی ڈور ٹوٹنے نہیں دی۔

پھر چوتھے دن وہ باہر نکلا۔ مگر اب کی بار پھر یہ ہوا ہے کہ گھنے جنگل سے نکلتے ہوئے اس کے راستے میں ایک سفید چٹان گر گئ۔ تموجن پھر اسے غیبی اشارہ سمجھا، دیوتاؤں کا ایک اشارہ سمجھا اور واپس چلا گیا۔ اس نے تین دن اور جنگل میں چھپ کر ہی گزار دیئے۔ لیکن اب بھوک اور پیاس اس کے بس سے باہر ہوتی جا رہی تھی۔ وہ ہر قیمت پر جنگل سے باہر نکل جانا چاہتا تھا۔ ویسے بھی اس کا خیال تھا کہ اب تک اس کے دشمن محاصرہ چھوڑ کر جا چکے ہوں گے۔ چناچہ اس نے اپنا چاقو نکالا اور جس جگہ چٹان گرنے سے راستہ بند ہوا تھا، اس کے ارد گرد کی جھاڑیاں کاٹنا شروع کر دیں اور اس طرح راستہ بنتا گیا کچھ دیر میں جب راستہ پوری طرح بن گیا تو جنگل سے باہر نکلا۔۔ مگر یہ کیا؟

اس کے دشمن کہیں نہیں گئے تھے ،باہر کھڑے اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ انہوں نے تموجن کو قیدی بنا لیا ۔اب  تموجن کی زندگی اور موت  ان ہی کے ہاتھ میں تھی۔ لیکن جلد ہی انہوں نےفیصلہ کیا ہے کہ وہ تمو جن کو فی الحال قید میں   ہی رکھیں گےقتل نہیں  کریں گے۔ دشمنوں نے اس کے گلے میں لکڑی کا ایک  شکنجہ کس دیا  تاکہ وہ آسانی سے بھاگ نہ سکے ۔پھر اسی خوشی میں ایک جشن منعقد کیا گیا۔۔ اس جشن    میں تموجن بھی شریک تھا مگر ظاہر ہے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ اس کی زنجیر ایک نوعمر لڑکے کے ہاتھ میں تھی۔

Figure.3

تمو جن کے ارد گرد قبیلے والے ناچ رہے تھے، گا رہے تھے اور فتح کی خوشیاں منا رہے تھے۔ لیکن پھر جلد ہی قبیلے کے لوگ مدہوشی میں ادھر ادھر بکھرنے لگے۔ بکھرتے لوگوں میں تموجن موقع تلاش کرنے لگا۔  موقع پا کر اس نے اپنا گردن میں پڑا ہوا بھاری شکنجہ زورسے گھمایا، جو زنجیر پکڑنے والے لڑکے کے سر پر لگا۔ لڑکا چوٹ کھا کر زمین پر گرا۔اس کے ہاتھ سےزنجیر چھوٹی اور تموجن بھاگ نکلا۔  زخمی لڑکے نے شور مچا دیا لیکن جشن مناتے لوگوں کو صورتحال سمجھنے میں کچھ وقت لگا ۔لیکن جیسے ہی انہیں صورتحال کا ادراک ہوا  وہ تیزی سے حرکت میں آئے اور اردگرد کے جنگل اور ندی نالوں کو ناپنے لگے ۔رات چاندنی  تھی دور دور تک ہر چیز صاف دکھائی دے رہی تھی ۔پھر تمو جن کی گردن میں جو شکنجہ پڑا ہوا تھا وہ بہت بھاری تھا۔ تموجن کا بچ نکلنا بظاہر ناممکن تھا۔

 قبیلے والوں کویقین تھا کہ وہ زیادہ دور نہیں جا سکتا۔وہ اسے جلد ہی ڈھونڈ نکالیں گے لیکن چپہ چپہ چھان مارنے کے باوجود انہیں تمو جن کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ آخر تموجن کہاں غائب ہو گیا تھا؟دراصل ہوا یہ تھا کہ تموجن نے بہت ہوشیاری دکھائی تھی۔ وہ اس کیمپ سے زیادہ دور تک گیا ہی نہیں تھا۔ قریب ہی  ایک ایسی ندی میں لیٹ گیا تھا جس میں پانی بہت کم تھا۔ وہ مناسب موقع کی تلاش میں تھا لیکن پھر یہ ہوا کہ ایک  شخص نے اسے ندی میں چھپے ہوئے دیکھ لیا۔

یہ دن تمو جن کا آخری دن بھی ہو سکتا تھا۔ لیکن ہوا یہ کہ وہ شخص تموجن  کا خفیہ ہمدرد نکلا۔ اس نے خبر عام کرنے کے بجائے اس کو چپکے سے اپنے بھائیوں اور  ماں کے پاس چلے جانے کا مشورہ دیا اور خاموش رہنے کا وعدہ کیا۔ یہ مشورہ دینے کے بعد وہ خاموشی سے کسی کو بتائے بغیر اپنے خیمے میں لوٹ آیا۔ لیکن پھر رات میں کسی پہر اس کے خیمے میں کوئی داخل ہوا۔ت یہ تموجن ہی تھا۔ اور اسے ایک بار پھر اپنے خفیہ ہمدرد کی مدد چاہیے تھی ۔ کیونکہ وہ گردن میں پڑے بھاری شکنجے کے ساتھ آسانی سے حرکت نہیں کر سکتا تھا بھاگ نہیں سکتا ۔ وہ شخص ایک بار پھر کام آیا۔ اس نے اور اس کے بیٹوں نے تموجن کا شکنجہ اتار کر جلا دیا۔ لیکن اس دوران تمو جن کو تلاش کرنے والے بھی ایک ایک جگہ کو دیکھتے ہوئے اسی طرف آ رہے تھے۔ ہمدرد  کے گھر والوں نے تموجن کو اپنے خیمے کے پیچھے کھڑے ایک چھکڑے میں چھپا کر اس پر اون کا ڈھیر لگا دیا۔

 ڈھونڈنے والے  اس اون  کے ڈھیر تک بھی آن پہنچے۔ انہوں نے چھکڑے سے اون  ہٹانا شروع کر دی  تاکہ دیکھ سکے کہ کہیں وہ اس میں چھپا ہوا تو نہیں ہے۔ قریب تھا کہ وہ لوگ  تموجن کو ڈھونڈ نکالتے۔  لیکن ایسے میں اس کے ہمدرد میزبان کی ہوشیاری کا م آگئ۔ اس نےدیکھا کے تلاشی لینے والے پسینے میں شرابور ہو رہے ہیں ۔اس نے سپاہیوں سے کہا کہ  جب اون کے پاس کھڑے رہنا اتنامشکل ہے  توایسے میں کوئی اس کے اندر کیسے چھپا ہوسکتا ہے۔سپاہی شاید پہلے ہی ڈھونڈ ڈھونڈ کر اکتائے ہوئے تھے۔ یہ جملہ ان کے لئے  بہانہ  بن گیا اور وہ تلاش چھوڑ کر بالکل۔۔بالکل ۔۔ کہتے ہوئے جہاں سے آئے تھے اسی طرف لوٹ گئے۔ تموجن ایک بار پھر  بال بال بچا تھا۔ان لوگوں کے چلے جانے کے بعد اس شخص نے تموجن کو چھکڑے سے نکالا۔ اسے سفر کے لیے ایک گھوڑی دی، کھانے کے لیے گوشت، ایک کمان اور دو تیر بھی دیئے۔ ایک لمبا چکر کاٹتے ہوئے تموجن جب اس جگہ پہنچا جہاں اس کے بھائیوں اور رشتہ داروں نے آخری بار اسے بھاگنے میں مدد کی تھی ۔جہاں کبھی اس کا کیمپ تھا۔ لیکن اب تو وہاں کچھ بھی نہیں تھا حملوں کے خوف سے وہ جگہ چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے تھے۔

 لیکن تموجن باقی منگولوں کی طرح ایک ماہر کھوجی بھی تھا۔ اس نے راستے میں گھوڑوں کے ٹاپوں کے نشانات اور  دوسری چیزوں سے اندازہ لگا لیا  کہ اس کے ساتھی کس طرف کو گئے ہوں گے۔ کھوجتے کھوجتے جلد ہی وہ اپنے  اپنوں سے آملا۔ اس کے بعد تموجن اپنے مختصر سے  قافلے کو لے کر پہاڑوں کی طرف نکل گیا۔ تاکہ  اس کی تلاش میں نکلے ہوئے دشمن اس کی اور اس کے پیاروں کے جان نہ لے سکیں۔ وہ  ایک ایسی جگہ پڑاو   کے لئے ٹھہرے جو کسی قدر محفوظ  تھی۔ لیکن وہ انہیں بھوک مٹانے کے لیے بہت مسائل کا سامنا تھا یہاں تک کہ انہیں کئی بار چوہے تک کھانا پڑے ۔کئی دفعہ انہیں ڈاکووں  کے حملوں کا بھی سامنا ہوا۔ لیکن وہ یہ سب  جھیلتے  رہے اوردن گزرتے  رہے۔

تموجن 16 برس کا ہو چکا تھا۔ اسے اپنی منگیتر کی یاد ستانے لگی ۔تو وہ اپنے ہونے والے سسر کے گھر جا پہنچا۔ یہاں اس نے بورتے  سے  شادی کر لی اور تحفے میں سسرالیوں نے اسے انتہائی قیمتی پوستین دی۔ تموجن اپنی  دلہن  اور قیمتی پوستین کو لے کر اپنے گھر واپس چلا آیا۔ اس نے ایک نئی اور پرامن شروعات کردی۔ لیکن اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ اس کی دلہن بورتے اور سمور کی قیمتی پوشاک اسے تاریخ میں ایک ناقابل فراموش موڈ کی طرف لے جا رہے ہیں۔ تموجن   خانہ بدوشوں کی طرح دریاوں کے کنارے کنارے زندگی گزار رہا تھا ۔جنگلی جانوروں، مچھلی اور پھلوں پر اس کا گزارا تھا۔ پھر ایک دن اسے معلوم ہوا کہ جس جگہ اس کا پڑاؤ ہے اس کے قریب ہی منگولوں کا ایک طاقتور  قبیلے کیرات کا بھی  پڑاو  بھی ہے۔

 کیرات قبیلے کا سردار طغرل  تھا۔جو اونگ خان کے نام سے مشہور تھا۔ وہ اور تموجن کا باپ یسوگئی گہرے دوست رہ چکے تھے۔ چنانچہ تموجن نے اونگ خان سے ملنے کا فیصلہ کیا۔ چلتے ہوئے تموجن نے سسرال سے ملی سمور کی پوستین بھی ساتھ رکھ لی۔ اونگ خان  کے پاس پہنچ کر اس نے  پوستین کا تحفہ پیش کیا اور اپنے باپ کی پرانی دوستی یاد کروائی۔ پرانے  دوست کے بیٹے کو مل کر اونگ خان تمو جن کا اتحادی بن گیا۔ وہ پوستین کے تحفے سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے تموجن سے کہا ” میں اس کے بدلے میں تمھارے بکھرے ہوئے  قبیلے کو تمھاری سرداری میں واپس لاوں گا”۔ تموجن اونگ کے کیمپ سے واپس چلا آیا۔وہ بہت خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ جلد ہی اسے اپنے قبیلے کے سردار ی واپس مل جائے گی اور اسے دربدر نہیں بھٹکنا پڑے گا۔ لیکن واپسی کے چند روز بعد ہی  اس کے ساتھ ایک خوفناک واقعہ پیش آیا جو اس  کی انا کے لیے بہت بڑا جھٹکا تھا۔ ایک صبح ابھی سورج نکل رہا تھا۔ تموجن  اور اس کے گھر والے پوری طرح بیدار نہیں ہوئے تھے کہ زمین بے شمار گھوڑوں کے ٹاپوں سے دہلنے لگی۔  

تموجن پر اس کے باپ کے ایک دشمن  قبیلے مرکد نے حملہ کر دیا تھا۔ یہ وہی قبیلہ تھا جس کے ایک شخص کی سابقہ بیوی ہولن  کو تمو جن کا باپ یسوگئی راستے سے چھین کر اپنے قبیلے میں لے آیا تھا۔ اس حملے کو دیکھتے ہوئے تموجن سمجھ گیا تھا کہ یہ بدلہ لینے کے لیے آرہے ہیں۔ تو  تموجن فوری طور پر اپنی بیوی بورتے کو ایک بیل گاڑی میں چھپا دیا۔ پھر اپنے بوڑھے ملازم کو کہا ہے کہ اسے جتنا دور ہو سکے لے جاؤ ۔بیوی کو ایک طرف بھیج کر تموجن اپنے بھائیوں اور ماں کے ساتھ دوسری طرف نکل گیا۔تا کہ حملہ آور اس کے پیچھے جائیں اور اس کی بیوی کو نہ پکڑ سکیں۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ اس کی بیوی والی گاڑی پکڑی گئی اور تموجن بحفاظت پہاڑوں میں پہنچ  گیا۔مرکد  قبیلے نے اپنا پرانا حساب چکا لیا تھا۔

Figure.4

تموجن کی بیوی ان کے قبضے میں تھی جیسے کبھی ا ن کی لڑکی  ہولن  تمو جن کے باپ کے قبضے میں تھی۔  جب تموجن کو  خبر ہوئی کہ اس  کی بیوی اغوا کر لی گئی ہے تو وہ غصے میں کھولتا ہوا کیرات  قبیلے کے سردار اونگ خان کے پاس پہنچا۔  اونگ خان نے اپنے  تعلق اور وعدے کی خوب لاج  رکھی۔اس نے بیس ہزار سپاہی تموجن کے ساتھ بھیج دیئے۔  اس دوران اس کا بچپن کا دوست جموکا  بھی بیس ہزار جنگجو لے کر اس کی مدد کو آن پہنچا ۔یہ بڑا لشکر اپنے ساتھ لے کر  تموجن  کے حوصلے آسمانوں کو چھونے لگے ۔وہ مرکد قبیلے کی اینٹ سے اینٹ  بجانے کے لیے اسے تلاش کرتا ہوا جنگلوں اور میدانوں کو ماپنے لگا۔ لیکن ظاہر ہے وہ  قبیلہ بھی ایک خانہ بدوش ہی تھا۔ کوئی ایک ٹھکانا تو اس کا تھا نہیں۔ تو یہ لشکر بھی مرکد  قبیلے  کا تعاقب کرتا ہوا چار سو کلومیٹر دور سائبیریا تک پہنچ گیا۔

یہاں تک کہ ایک ایسی جھیل آگئی جو دنیا کی سب سے بڑی میٹھے پانی کی جھیل ہے۔ روس  میں واقع  یہ جھیل دنیا کی سب سے گہری  جھیل بھی ہے۔ شاید یہ بات  اس وقت کے لوگوں کے علم میں نہ ہو لیکن اس جھیل کے کنارے پر تمو جن نے مرکد قبیلے کو دیکھ لیا۔ اس نے رات کے وقت اچانک حملہ کیا۔بہت سے لوگ تو اتنا بڑا لشکر دیکھ کر ہی بھاگ نکلے۔ جو باقی بچے وہ مقابلہ کرنے لگے۔  تلواروں،انسانی چیخوں اور گھوڑوں کا  ایک شور قیامت بھرپا تھا۔ اور اسی ہنگامے میں  تموجن دیوانہ وارآوازیں دے رہا تھا۔۔بورتے۔۔۔بورتے۔۔ لیکن ستم ظریفی تو دیکھیے کہ بورتے  کو علم ہی نہیں تھاکہ حملہ کرنے والے اس کے اپنے قبیلے کے لوگ ہیں اور تموجن ان کے ساتھ ہے۔ اس لیے وہ بھی  باقی لوگوں کے ساتھ چھکڑے پر سوار بھاگ  رہی تھی ۔ لیکن جب اس کے کانوں میں  تموجن کی آواز پڑی تو وہ پہچان گئی۔ وہ چھکڑے سے اتری اور اپنے محبوب شوہر کی طرف  بھاگی ۔ تموجن نےاسے گھوڑے پر بٹھا لیا اور دونوں پھر سے ایک ہو گئے اور مرتے مرتے دم تک وہ  تموجن کے ساتھ ہی رہی۔ اس کے بعد مرکد قبیلے کی وہ شامت آئی کے جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے  لیکن جو موجود رہے  ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا۔ بورتے تموجن کے پاس پہنچ چکی تھی لیکن یہاں ایک مسئلہ تھا۔ آٹھ ماہ کی قید کے دوران  وہ امید سے بھی ہوگئی تھی۔ واپسی کے کچھ ہفتوں بعد اس نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کا نام جو چی خان  رکھا گیا۔ تموجن کے گھر والوں نے جوچی خان کو مرکد قبیلے کی اولاد قرار دے کر مسترد کر دیا۔ لیکن تموجن نے بورتے کی محبت میں اس بیٹے کو بھی اپنا لیا اور اسے کبھی سوتیلے پن کا احساس نہیں ہونے دیا۔  یہ وہ وقت تھا جب تموجن تاریخ میں نام پیدا کرنے جا رہا تھا۔ پھر  ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے اسے تموجن سے چنگیز خان بنا دیا۔اسے چنگیز خان کا خطاب کیسے ملا تھا؟ چنگیز خان نے اپنے قریبی دوست سے پہلی بڑی جنگ کیوں  کی ؟ چنگیز خان نے پوری دنیا فتح کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

جاری ہے۔۔۔۔۔

[1]Faisal Warraich. (n.d.). Www.youtube.com. Retrieved January 2, 2023, from https://www.youtube.com/watch?v=H-sBR2G-qYw&ab_channel=DekhoSunoJano

Categorized in:

History,

Last Update: January 2, 2023