مولانا صفی الرحمان مبارکپوری

آج سے سیرت النبی کریمﷺ کا مبارک سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے. لیکن آپ ﷺ کی سیرت پاک کے تذکرہ سے پہلے بہت ضروری ہے کہ آپ کو سرزمین عرب اور عرب قوم اور اس دور کے عمومی حالات سے روشناس کرایا جاۓ .تاکہ آپ زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکیں کہ آپﷺ کی پیدائش کے وقت عرب اور دنیا کے حالات کیسے تھے۔

ملک عرب ایک جزیرہ نما ھے جس کے جنوب میں بحیرہ عرب ،مشرق میں خلیج فارس و بحیرہ عمان ،مغرب میں بحیرہ قلزم ہے ۔تین اطراف سے پانی میں گھرے اس ملک کے شمال میں شام کا ملک واقع ہے ۔مجموعی طور پر اس ملک کا اکثر حصہ ریگستانوں اور غیر آباد بے آب و گیاہ وادیوں پر مشتمل ہے جبکہ چند علاقے اپنی سرسبزی اور شادابی کے لیے بھی مشھور ہیں ۔ طبعی لحاظ سے اس ملک کے حصے یہ ہیں۔

یمن

یمن جزیرہ عرب کا سب سے زرخیز علاقہ رہا ہے۔ جس کو پرامن ہونے کی وجہ سے یہ نام دیا گیا آب و ہوا معتدل ہے اور اسکے پہاڑوں کے درمیان وسیع و شاداب وادیاں ہیں جہاں پھل و سبزیاں بکثرت پیدا ہوتے ہیں ۔قوم سبا کا مسکن عرب کا یہی علاقہ تھا جس نے آبپاشی کے لیے بہت سے بند (ڈیم) بناۓ جن میں مارب نام کا مشھور بند بھی تھا۔ اس قوم کی نافرمانی کی وجہ سے جب ان پر عذاب آیا تو یہی بند ٹوٹ گیا تھا اور ایک عظیم سیلاب آیا جس کی وجہ سے قوم سبا عرب کے طول و عرض میں منتشر ہوگئی۔

حجاز

یمن کے شمال میں حجاز کا علاقہ واقع ھے۔ حجاز ملک عرب کا وہ حصہ ہے جسے اللہ نے نور ہدایت کی شمع فروزاں کرنے کے لئے منتخب کیا اس خطہ کا مرکزی شہر مکہ مکرمہ ہے جو بے آب و گیاہ وادیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ایک ریگستانی علاقہ ہے۔ حجاز کا دوسرا اہم شہر یثرب ہے جو بعد میں مدینۃ النبیﷺ کہلایا ۔جبکہ مکہ کے مشرق میں طائف کا شہر ہے جو اپنے سرسبز اور لہلہاتے کھیتوں اور سایہ دار نخلستانوں اور مختلف پھلوں کی کثرت کی وجہ عرب کے ریگستان میں جنت ارضی کی مثل ہے ۔حجاز میں بدر، احد، بیر، معونہ ،حدیبیہ اور خیبر کی وادیاں بھی قابل ذکر ہیں۔

نجد

ملک عرب کا ایک اہم حصہ نجد ہے جو حجاز کے مشرق میں ہے اور جہاں آج کل سعودی عرب کا دارالحکومت الریاض واقع ہے۔

حضرموت

یہ یمن کے مشرق میں ساحلی علاقہ ہے بظاہر ویران علاقہ ہے پرانے زمانے میں یہاں ظفار اور شیبان نامی دو شہر تھے۔

مشرقی ساحلی علاقے (عرب امارات)

ان میں عمان الاحساء اور بحرین کے علاقے شامل ہیں یہاں سے پرانے زمانے میں سمندر سے موتی نکالے جاتے تھے ۔جبکہ آج کل یہ علاقہ تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔

وادی سیناء

حجاز کے شمال مشرق میں خلیج سویز اور خلیج ایلہ کے درمیان وادی سیناء کا علاقہ ہے۔ جہاں قوم موسیٰ علیہ سلام چالیس سال تک صحرا نوردی کرتی رہی طور سیناء بھی یہیں واقع ہے جہاں حضرت موسیٰ علیہ سلام کو تورات کی تختیاں دی گئیں۔

نوٹ

ایک بات ذہن میں رکھیں کہ اصل ملک عرب میں آج کے سعودی عرب یمن بحرین عمان کا علاقہ شامل تھا ۔جبکہ شام عراق اور مصر جیسے ممالک بعد میں فتح ہوۓ اور عربوں کی ایک کثیر تعداد وہاں نقل مکانی کرکے آباد ہوئی اور نتیجةً یہ ملک بھی عربی رنگ میں ڈھل گئے ۔لیکن اصل عرب علاقہ وہی ہے جو موجودہ سعودیہ بحرین عمان اور یمن کے علاقہ پر مشتمل ہے اور اس جزیرہ نما کی شکل نقشہ میں واضح طور دیکھی جاسکتی ہے۔

عرب کو عرب کا نام کیوں دیا گیا اس کے متعلق دو آراء ہیں ایک راۓ کے مطابق عرب کے لفظی معنی فصاحت اور زبان آوری کے ہیں۔ عربی لوگ فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے دیگر اقوام کو اپنا ہم پایہ اور ہم پلہ نہیں سمجھتے تھے ۔اس لیے اپنے آپ کو عرب (فصیح البیان) اور باقی دنیا کو عجم (گونگا) کہتے تھے۔ دوسری راۓ کے مطابق لفظ عرب عربہ سے نکلا ہے جس کے معنی صحرا اور ریگستان کے ہیں ۔چونکہ اس ملک کا بیشتر حصہ دشت و صحرا پر مشتمل ہے اس لیے سارے ملک کو عرب کہا جانے لگا۔

اس دور میں عرب کی ایک مشہور ہستی کا نام تھا۔ قُصَیّ بن کلاب ایک روایت کے مطابق قُصَیّ بن کلاب کا لقب قریش تھا ۔جس کی وجہ سے ان کی آل اولاد کو قریشی کہا جانے لگا جبکہ ایک دوسری روایت کے مطابق قُصَیّ بن کلاب سے چھ پشت پہلے بنی اسمائیل میں فہر بن مالک ایک بزرگ تھے جن کا لقب قریش تھا۔ قُصَیّ بن کِلاب بن مُرَّة بن کَعْب مکہ میں قریش کے پیشوا تھے ۔انہوں نے مکہ کوخزاعہ کے تسلط سے آزاد کرایا اور قریش کو ذلت کے بعد شرافت بخشی ۔کنواں کھودنا بیت اللہ الحرام کے زائرین کو خدمت رسانی اور کعبہ کی تعمیر نو ان کی نمایاں خدمات ہیں۔ خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ قُصَیّ بن کلاب اور ان کی اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی عزت و سیادت حاصل ہوگئی تھی۔ اور پھر اس قریش (آل قصی بن کلاب) نے خود کو اس کے قابل ثابت بھی کیا۔

قصی بن کلاب نے نہ صرف خانہ کعبہ کا جملہ انتظام و انصرام کا بندوبست کیا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر مکہ کو باقائدہ ایک ریاست کا روپ دے کر چھ مختلف شعبے قائم کئے اور انہیں قابل لوگوں میں تقسیم کیا ۔جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باہمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا اور یہی نظام بعث نبویﷺ تک بڑی کامیابی سے چلایا گیا ۔اس تقسیم کے نتیجے میں آپﷺ کے جد امجد حضرت ہاشم کو سقایہ (حاجیوں کو پانی پلانے کا کام) عمارۃ البیت (حرم میں نظم و ضبط قائم رکھنا اور احترام حرم کا خیال رکھنا) اور افاضہ (حج کی قیادت کرنا) کی خدمات سونپی گئی۔ جو ان کے بعد بنو ہاشم کے خاندان میں نسل در نسل چلتی رہیں۔

حضرت ہاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے۔ نہایت ہی جلیل القدر بزرگ تھے ۔انہوں نے شاہ حبشہ اور قیصر روم سے بھی اپنے سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کرلئے تھے۔ جبکہ مختلف قبائل عرب سے بھی معاہدات کرلئے ان کے اس طریقہ کار اور کارناموں کی وجہ سے قریش کے باقی قبائل میں بنو ہاشم کو ایک خصوصی عزت و احترام کا مقام حاصل ہوگیا تھا۔ان کے علاوہ میدان جنگ میں فوج کی قیادت اور علم برداری کا شعبہ خاندان بنو امیہ کے حصے میں آیا۔ ۔لشکر قریش کا سپہ سالار بنو امیہ سے ہی ہوتا تھا۔ چنانچہ حرب جو حضرت ہاشم کے بھتیجے امیہ کے بیٹے تھے ان کو اور انکے بیٹے حضرت ابوسفیان کو اسی وجہ سے قریش کے لشکر کی قیادت سونپی جاتی تھی۔ جبکہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے قبیلے بنو تمیم بن مرہ کو اشناق یعنی دیوانی و فوجداری عدالت دیت و جرمانے کی وصولی اور تعین کی ذمہ داری سونپی گئی۔اس کے علاوہ شعبہ سفارت حضرت عمر فاروقؓ کے قبیلہ بنو عدی کے حصے میں آیا ان کا کام دوسرے قبائل کے ساتھ مذاکرات معاہدات اور سفارت کاری تھا۔ بنو مخزوم جو حضرت خالد بن ولیدؓ کا قبیلہ تھا۔ان کے حصے میں قبہ و اعنہ کا شعبہ آیا ان کا کام قومی ضروریات کے لئے مال و اسباب اکٹھا کرنا اور فوجی سازو سامان اور گھوڑوں کی فراہمی تھا۔ قریش کے گھڑسوار دستے کا کمانڈر بھی اسی قبیلے سے ہوتا تھا اپنا وقت آنے پر حضرت خالد بن ولیدؓ نے مدتوں شہہ سوار دستوں کی کمان نہایت خوش اسلوبی سے سنبھالی۔ اسی طرح باقی پانچ شعبوں کی ذمہ داری مختلف قبائل قریش کے حوالے کردی گئی۔

حضرت ہاشم نے قیصر روم کے ساتھ تجارتی و سفارتی تعلقات قائم کرلئے تھے ۔ چنانچہ اسی سلسلے میں شام کی طرف سفر کے دوران ان کی شادی بنو نجار کی ایک معزز خاتون سلمیٰ سے ہوئی مگر بدقسمتی سے اسی سفر کے دوران حضرت ہاشم کا انتقال ہوگیا ۔ ان کی وفات کے بعد ان کا ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام شیبہ رکھا گیا ۔ مگر چونکہ شیبہ کو ان کے چچا مطلب بن عبد مناف نے پالا پوسا تو شیبہ کو عبدالمطلب (مطلب کا غلام) کہا جانے لگا اور پھر انہیں تاریخ نے ہمیشہ اسی نام سے یاد رکھا۔

حضرت عبدالمطلب بے حد حسین جمیل وجیہہ اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ اللہ نے انہیں بےحد عزت سے نوازا اور وہ قریش مکہ کے اہم ترین سردار بنے ایک مدت تک ان کی اولاد میں ایک ہی بیٹا تھا جن کا نام حارث تھا۔ حضرت عبدالمطلب کو بہت خواہش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ہوں چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے ۔ اللہ نے ان کی دعا اور منت کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس یا بارہ بیٹے پیدا ہوئے جن میں سے ایک جناب حضرت عبداللہ تھے۔آپ حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے ۔اور نہ صرف اپنے والد کے بلکہ پورے خاندان کے بہت چہیتے تھے۔ حضرت عبدالمطلب کو ان سے بہت محبت تھی۔

دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی۔ چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا ۔حضرت عبدالمطلب یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوۓ کیونکہ شدت محبت کی وجہ سے ان کا دل نہ چاہتا تھا کہ حضرت عبداللہ کو قربان کردیں مگر چونکہ وہ منت مان چکے تھے تو اس کی خلاف ورزی بھی نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے یہ دیکھ کر خاندان بنو ہاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا بہت پریشان ہوۓ ۔ وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاہنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا چنانچہ جب اس کاہنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ۔ عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دئے جاتے ہیں ۔تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا۔

حضرت عبداللہ کی شادی بنو زہرہ کے سردار وہب بن عبدمناف کی بیٹی جناب حضرت آمنہ سے ہوئی ۔ جن کے بطن سے تاجدار دوجہان حضرت محمدﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی۔ آپ ﷺ کی پیدائش مبارکہ سے صرف پچاس دن پہلے ایک واقعہ عام الفیل ظہور پذیر ہوا۔ جب حبشی نژاد ابرھہ خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا؟

کیا اس نے ان کی تدبیر کو نامراد نہیں بنا دیا؟

اللہ نے ان پر پرندوں (ابابیل) کے جھنڈ بھیجے جو ان پر (کھنگر مٹی کی) کنکریاں پھینکتے تھے اس طرح اللہ نے ان کو کھاۓ ہوۓ بھوسے کی طرح کردیا

سورہ الفیل آیت 1 تا 5

واقعہ اصحاب الفیل حضرت محمدﷺ کی ولادت مبارکہ والے سال یعنی 571 عیسوی میں پیش آیا ۔ جب یمن کا حبشی نژاد عیسائی حکمران ابرہہ بن اشرم 60 ہزار فوج اور 13 ہاتھی لیکر خانہ کعبہ کو گرانے کے ارادے سے مکہ پر حملہ آور ہوا۔ ابرھہ بن اشرم آغاز میں اس عیسائی فوج کا ایک سردار تھا۔ جو شاہ حبشہ نے یمن کے حمیری نسل کے یہودی فرماں روا یوسف ذونواس کے عیسائیوں پر ظلم و ستم کا بدلہ لینے کو بھیجی ۔جس نے 525 عیسوی تک اس پورے علاقے پر حبشی حکومت کی بنیاد رکھ دی ابرہہ بن اشرم رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوۓ بالآخر یمن کا خود مختار بادشاہ بن بیٹھا۔ لیکن کمال چالاکی سے اس نے براۓ نام شاہ حبشہ کی بالادستی بھی تسلیم کئے رکھی اور اپنے آپ کو نائب شاہ حبشہ کہلواتا رہا۔

ابرھہ ایک کٹر متعصب عیسائی تھا ۔ اپنا اقتدار مضبوط کرلینے کے بعد اس نے عربوں میں عیسائیت پھیلانے کی سوچی جبکہ اس کا دوسرا ارادہ عربوں کی تجارت پر قبضہ جمانا تھا۔اس مقصد کے تحت اس نے یمن کے دارالحکومت صنعاء میں ایک عظیم الشان کلیسا (گرجا) تعمیر کرایا ۔ جسے عرب مؤرخین القلیس اور یونانی ایکلیسیا کہتے ہیں ۔ اس کلیسا کی تعمیر سے اس کے دو مقاصد تھے ایک تو عیسائیت کی تبلیغ کرکے عربوں کے حج کا رخ کعبہ سے اپنے کلیسا کی طرف موڑنا تھا اور اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتا تو اس کا دوسرا نتیجہ یہ نکلتا کہ عربوں کی ساری تجارت جو ابھی تک خانہ کعبہ کی وجہ سے عربوں کے پاس تھی وہ یمن کے حبشی عیسائیوں کے ہاتھ آجاتی ۔ ابرھہ نے پہلے شاہ حبشہ کو اپنے اس ارادے کی اطلاع دی اور پھر یمن میں علی الاعلان منادی کرادی کہ میں عربوں کا حج کعبہ سے اکلیسیا کی طرف موڑے بغیر نہ رہونگا ۔ اس کے اس اعلان پر غضب ناک ہو کر ایک عرب (حجازی) نے کسی نہ کسی طرح ابرھہ کے گرجا میں گھس کر رفع حاجت کر ڈالی۔ اپنے کلیسا کی اس توہین پر ابرھہ نے قسم کھائی کہ میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھوں گا جب تک کعبہ کو گرا نہ دوں۔

اس کے بعد سنہ 570 عیسوی کے آخر میں وہ 60 ہزار فوج اور 13 جسیم ہاتھی لیکر یمن سے مکہ پر حملہ آور ہونے کے ارادے سے نکلا ۔ راستے میں دو عرب سرداروں نے اس کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی مگر شکست کھائی اور ابرہہ کسی طوفان کی طرح مکہ کے مضافاتی مقام المغمس میں پہنچ گیا۔ یہاں ابرھہ کے لشکر نے پڑاؤ ڈالا جبکہ چند دستوں نے اس کے حکم پر مکہ کے قریب میں لوٹ مار کی اور اہل تہامہ اور قریش کے بہت سے مویشی بھی لوٹ لئے گئے ۔ جن میں مکہ کے سردار اور آپﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب بن ہاشم کے دو سو اونٹ بھی تھے۔ اس کے بعد ابرہہ نے ایک ایلچی مکہ کے سردار حضرت عبدالمطلب کے پاس بھیجا اور اس کے ذریعے اہل مکہ کو پیغام دیا کہ میں تم سے لڑنے نہیں آیا ہوں بلکہ اس گھر (کعبہ) کو گرانے آیا ہوں اگر تم نہ لڑو تو میں تمہاری جان و مال سے کوئی تعرض نہ کروں گا۔ حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا ہم میں ابرہہ سے لڑنے کی طاقت نہیں ہے۔ کعبہ اللہ کا گھر ہے وہ چاہے گا تو اپنے گھر کو بچا لے گا۔ ایلچی نے کہا آپ میرے ساتھ ابرھہ کے پاس چلیں وہ اس پر راضی ہوگئے۔ حضرت عبدالمطلب بہت خوبصورت اور شاندار شخصیت کے مالک تھے۔ ابرھہ ان کی مردانہ وجاہت سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنے تخت سے اتر کر ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا پھر آپ سے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں؟

انہوں نے کہا “میرے جو اونٹ پکڑ لئے گئے ہیں میں اپنے ان اونٹوں کی واپسی چاہتا ہوں”۔

ابرھہ ان کی بات سن کر سخت متعجب ہوا اور کہا “آپ مجھ سے اپنے دو سو اونٹوں کی واپسی کا مطالبہ تو کر رہے ہیں مگر اس بیت اللہ کا ذکر نہیں کرتے جو آپ کے اور آپ کے آباؤ اجداد کے دین کی بنیاد ہے میں اسے گرانے آیا ہوں مگر آپ کو اس کی کوئی فکر ہی نہیں”۔

یہ سن کر حضرت عبدالمطلب نے کہا “ان اونٹوں کا مالک میں ہوں ۔ اس لئے آپ سے ان کی واپسی کی درخواست کر رہا ہوں رہا یہ گھر تو اس گھر کا مالک اللہ ہے وہ اس کی حفاظت خود کرے گا”۔

ابرھہ نے متکبرانہ انداز میں کہا کعبہ کو اب آپ کا اللہ بھی مجھ سے نہیں بچا سکے گا۔

حضرت عبدالمطلب نے جواب دیا

یہ معاملہ آپ جانیں اور اللہ لیکن یہ اس کا گھر ہے اور آج تک اس نے کسی کو اس پر مسلط نہیں ہونے دیا۔ یہ کہ کر وہ ابرھہ کے پاس سے اٹھ گئے اور ابرھہ سے واپس لئے گئے اونٹ لیکر مکہ آگۓ۔ 

قریش اتنی بڑی فوج سے لڑ کر کعبہ کو بچانے کی طاقت نہ رکھتے تھے۔ لہٰذا حضرت عبدالمطلب نے انہیں کہا کہ سب اپنے بال بچوں اور مال مویشی لیکر پہاڑوں میں چلے جائیں تاکہ ان کا قتل عام نہ ہو۔ پھر وہ قریش کے چند سرداروں کے ساتھ حرم کعبہ پہنچے اور اللہ کے حضور اپنی کمزوری کا اظہار کرکے دعائیں مانگی کہ وہ اپنے گھر کی خود حفاظت فرماۓ۔

مؤرخین نے حضرت عبدالمطلب کے جو دعائیہ اشعار نقل کئے وہ یہ ہیں

الٰہی! بندہ اپنے گھر کی حفاظت کرتا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما کل ان کی صلیب اور ان کی تدبیر تیری تدبیر پر غالب نہ آنے پاۓ صلیب کی آل کے مقابلے پر آج اپنی آل کی مدد فرما”

اے میرے رب! تیرے سوا میں ان کے مقابلے میں کسی سے امید نہیں رکھتا

اے میرے رب! ان سے اپنے حرم کی حفاظت فرما

یہ دعائیں مانگ کر حضرت عبدالمطلب بھی سرداران قریش کے ساتھ باقی اہل مکہ کے پاس پہاڑوں میں چلے گئے۔ دوسرے روز ابرہھہ نے مکہ پر حملہ کا حکم دیا اور وہ مکہ میں داخل ہونے کے لئے آگے بڑھا مگر حیرت انگیز طور پر اس کا خاص ہاتھی محمود مکہ کی طرف چلنے کی بجاۓ یکایک وہیں بیٹھ گیا اور بے پناہ کوشش کے باوجود بھی اپنی جگہ سے نہ ہلا۔ مگر جب اس کا منہ شام کی طرف کیا گیا تو اٹھ کر چلنے لگا اور یمن کی طرف رخ ہوا تو ادھر بھی دوڑنے لگا مگر مکہ کی طرف اسے چلانے کی کوشش کی جاتی تو ایک انچ ادھر نہ بڑھتا۔ نتیجتہ باقی ہاتھیوں سمیت سارا لشکر بھی اپنی جگہ انتظار میں رکا ہوا تھا۔

ابھی وہ اسی چکر میں پھنسے تھے کہ اللہ کے قہر نے ان کو آ لیا اور اللہ کے حکم سے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ ان پر نازل ہوگئے۔ ہر ابابیل کے چونچ اور دونوں پنجوں میں سنگریزے دبے ہوۓ تھے۔ ابرھہ اور اس کے لشکر کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ابابیلوں نے عین ان کے اوپر آ کر وہ سنگ ریزے گرانا شروع کردئے۔ وہ سنگ ریزے سنگ ریزے کہاں تھے وہ تو اللہ کا عذاب تھا جس پر جہاں گرتے بجاۓ صرف زخمی کرنے کے کسی چھوٹے بم کی سی تباہی مچا دیتے اللہ کے گھر پر حملہ کرنے کی جرأت کرنے والوں کے لئے کہیں کوئی جاۓ پناہ نہ تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں ابرہہ اپنے 60 ہزار کے لشکر اور 13 ہاتھیوں سمیت سنگریزوں کی اس بارش میں اپنے انجام کو پہنچا اور یوں پہنچا کہ جیسے کھایا ہوا بھوسہ ہو۔ ہر طرف انسانی لاشیں چیتھڑوں کے روپ میں پڑیں تھیں۔

یہ واقعہ 571 عیسوی میں محرم کے مہینہ میں مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان وادی محصب کے قریب محسر کے مقام پر پیش آیا۔ جس سال یہ واقعہ پیش آیا اہل عرب اسے عام الفیل کہتے ہیں جبکہ اسی سال اس واقعہ کے 50 دن بعد آپﷺ کی ولادت مبارک ہوئی۔…

✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے……

Categorized in:

History,

Last Update: June 23, 2022