مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

پچھلی اقساط میں عربوں میں بت پرستی کی تاریخ اور ولادتِ نبی پاکﷺ کے وقت سرزمین عرب اور خصوصاََ مکہ و مدینہ میں رائج مختلف ادیان اور عقائد کا جائزہ لیا گیا۔ اس قسط میں ظہور اسلام کے وقت عربوں اور خصوصاََ قریش مکہ کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کئے جائینگے۔

ظہور اسلام کے وقت اگر عرب معاشرے کا ایک سرسری سا جائزہ بھی لیا جاۓ تو ایک بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ تب کا عرب معاشرہ ایک ہی وقت میں اچھی بری متضاد خصلتوں کا شکار تھا ۔ اس سے بھی اہم بات یہ کہ اچھی بری یہ متضاد خصلتیں اپنی پوری شدت سے ان میں سرائیت پذیر تھیں۔ ایسے میں اگر ہم ان میں رائج بد عادات و رسوم و رواج کو مدنظر رکھیں تو عرب معاشرہ ایک بدترین معاشرے کی تصویر پیش کرتا ہے۔

اور اگر ہم عربوں کے اوصاف حمیدہ کو سامنے رکھیں تو درحقیقت ان سے بہتر انسانی معاشرہ اور معاشرتی اقدار کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

بنیادی طور پر عرب معاشرہ تین طبقات پر مشتمل تھا؛

حضری

وہ لوگ جو شہروں میں آباد تھے اور مستقل طور پر شہروں میں ہی سکونت پذیر تھے ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی۔ حضری عربوں کا ذریعہ آمدنی نخلستانوں کی آمدن اور تجارت تھا۔ درحقیقت یہ آپ ﷺ کے پردادا حضرت ہاشم تھے جنہوں نے روم و ایران اور شام و ہندستان کے حکمرانوں کے ساتھ تجارتی معاہدات کئے۔ اس طرح عرب لوگ بڑے بڑے قافلوں کی صورت میں ان ممالک جاتے اور وہاں سے قافلے عرب آتے۔ قریش مکہ کو کیونکہ خانہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے مرکزی اہمیت حاصل تھی اس لئے قریش مکہ کے قافلوں کو عرب کے بدوی قبائل لوٹنے سے بھی گریز کرتے۔

بدوی

عرب کی اکثر آبادی بدوی قبائل پر مشتمل تھی جو خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتی تھی ۔ ان کا اصل ذریعہ معاش گلہ بانی یعنی جانور پالنا تھا۔ اس لئے جہاں کہیں چراگاہ نظر آتی وہیں ڈیرے ڈال دیئے جاتے تھے۔ جب اس چراگاہ میں ان کے جانوروں کی خوراک ختم ہوجاتی تو وہاں سے کسی اور جگہ کا رخ کرتے۔ اس کے علاوہ رہزنی بھی انکی آمدن کا ایک بڑا ذریعہ تھا۔ یہ لوگ عرب کے صحراؤں میں آتے جاتے قافلوں کو لوٹ لیتے جو قبائل ڈاکہ کے ذریعے روزی کماتے تھے وہ اس پر بہت فخر کیا کرتے تھے۔

لونڈی اور غلام

معاشرے کا تیسرا اور سب سے نچلا طبقہ لونڈیوں اور غلاموں کا تھا جو حضری و بدوی عربوں کے ساتھ خادم کی حیثیت سے رہتے تھے۔ غلاموں میں عرب اور غیر عرب دونوں شامل تھے۔ عرب تو قبائل کی آپس کی جنگ میں مغلوب ہونے یا پھر مقروض ہونے کی وجہ سے لونڈی اور غلام بنا لئے جاتے، جبکہ غیر عرب بکتے بکاتے سرزمین عرب پہنچتے جہاں باقائدہ منڈیوں اور بازاروں میں انکی خرید و فروخت ہوتی تھی۔ مالک کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے غلام پر جسطرح چاہے ظلم ڈھاۓ اور چاہے تو اسے جان سے ہی مار ڈالے ۔ معمولی معمولی باتوں پر غلاموں کو اتنی سخت سزائیں دی جاتیں کہ انسانیت کی روح بھی کانپ اٹھتی۔ غلام کا بیٹا بھی پیدائشی غلام ہوتا تھا اسی طرح لونڈیاں بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنتی تھیں اور ان سے بدکاری کا پیشہ بھی کرایا جاتا تھا۔ ناچ گانے جاننے والی لونڈیوں کی قیمتیں نسبتاََ زیادہ ہوتی تھیں۔ غرض یہ کہ غلاموں اور لونڈیوں کی جان و مال عزت و آبرو اور اولاد سب کی سب انکے آقا کی ہی ملکیت ہوتی تھی۔

عرب معاشرے میں جنگ و جدل کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا۔ مگر اس جنگ و جدل ،مسلسل خانہ جنگی اور صدیوں تک جاری رہنے والے باہمی بغض و عناد اور تعصب و عداوت کے باوجود عرب ایک مشترکہ ثقافت رکھتے تھے۔ جس کے بنیادی عناصر میں اپنے آباء و اجداد پر فخر کرنا انکی روایات کو برقرار رکھنا اور مشترکہ زبان عربی کو گنوایا جاسکتا ہے۔ عرب نسلی طور پر قحطانی اور عدنانی (بنو اسماعیل) دو گروہوں میں بٹے ہوتے تھے۔ لیکن دونوں کو عربی زبان پر فخر تھا۔ شعرو شاعری بچے بچے کی زبان پر تھی اور شعری ذوق اور عرب ثقافت کا بھرپور اظہار طائف کے قریب عکاظ کے مقام پر ہر سال لگنے والے میلہ میں کیا جاتا۔ عام حالات میں ایک عرب جنگجو سپاہی تھا مگر اس میلے میں وہ بھی ایک شاعر کا روپ دھار لیتا۔ شراب نوشی کی مجلسیں سجائی جاتیں اور گردش جام کے ساتھ ایسی بلند پایہ غزلیں کہی جاتیں کہ آج تک اس دور کے ادب کو کلاسیکی مانا جاتا ہے۔ فاحشہ عورتوں کی موجودگی نے ان مجالس کو بے ہودگی کی انتہائی پستیوں تک پہنچا دیا تھا۔

پروفیسر عبدالحمید صدیقی اپنی کتاب لائف آف محمدﷺ میں لکھتے ہیں کہ جب عرب تاجر اپنے تجارتی کارواں لیکر روم و ایران و شام اور ہندستان تک جاتے وہ واپسی پر عیش پرستی اور تمام بری عادات ساتھ لے کر لوٹتے۔ شام و عراق سے لڑکیاں درآمد کی جاتیں جنہیں عیش پرستی کے لئے استعمال کیا جاتا۔ شہوانی خواہشات کے اس چٹخارے نے عربوں کو بلا کا اوباش اور نفس پرست بنا دیا تھا ۔ ان کے ہاں بدکاری اتنی رچ بس گئی تھی کہ اگر کوئی صالح شخص ان بدکاریوں اور بری عادات سے اجتناب برتتا تو اس کا مذاق اڑایا جاتا اور اسی کمینہ کنجوس اور غیر ملنسار قرار دے دیا جاتا۔

عرب معاشرے کی اخلاق باختگی کا ایک اور تاریک پہلو خاندانی نظام کی گراوٹ تھا۔ عرب کے متمول طبقے میں تو پھر بھی حالت کچھ بہتر تھی۔ مگر عمومی طور پر مرد عورت کا اختلاط سواۓ فحاشی اور بدکاری کے اور کچھ نہیں تھا۔ ایک ہی وقت میں کئی کئی عورتوں کو اپنے حرم میں داخل کرلیا جاتا۔ دو سگی بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لینا اور باپ کے مرنے کے بعد سوتیلی ماں کو اپنی زوجیت میں لے لینے میں کوئی عار نہ تھا۔ دس دس لوگ ایک ہی عورت سے تعلقات قائم کر لیتے جگہ جگہ رنڈیوں اور طوائفوں کے گھر زنا اور بدکاری کے اڈے تھے۔ شراب نوشی اور جواء عام تھا۔ انکی بے حیائی کا یہ عالم تھا کہ انکی بیٹیاں تک نیم عریاں لباس میں قبائلی مخلوط مجالس میں شریک ہوتیں۔ جہاں انکے جسمانی اعضاء پر نہایت فحش شعر پڑھے جاتے۔ دنیا کی شاید ہی کوئی برائی ہو جو عربوں میں موجود نہ تھی۔ لہو و لعب فسق و فجور اور قتل و غارتگری کے دلدادہ، زنا و بدکاری کے رسیا اور شراب نوشی اس قدر کہ جیسے ہر گھر ایک شراب خانہ تھا۔ عرب نہایت شقی القلب اور سنگدل تھے۔ جانوروں کو درختوں سے باندھ کر نشانہ بازی کی مشق کی جاتی۔ زندہ جانور کا کوئی حصہ کاٹ کر کھا جاتے۔ اسیران جنگ کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ایک ایک عضو کاٹ کر موت کے گھاٹ اتارا جاتا۔ دشمنوں کا جگر نکال کر کچا چبا لیا جاتا۔ ان کے کاسہ سر میں شراب ڈال کر پی جاتی۔ مجرموں کو حد درجہ وحشیانہ سزائیں دی جاتیں۔

درحقیقت یہ اسلام کی حقانیت و سچائی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایسی وحشی و جاہل قوم کو بدل کر تمام اقوام عالم کا پیشوا بنا دیا اور انکو اخلاقی طور پر فرشتوں کے جیسا پاکیزہ بنا دیا۔

تاہم اخلاقی طور پر پستی اور گراوٹ کی اتھاہ گہرایوں میں ڈوبے اس معاشرے میں ایسے بھی سلیم الفطرت صالح انسان موجود تھے جو ان قبیح حرکات سے الگ تھلگ تھے۔

دوسری طرف جب انہی بدکار و بے حیا عربوں میں کچھ ایسی اخلاقی اچھائیاں بھی پائی جاتی تھیں جو ان عربوں کے لیے وجہ امتیاز تھیں۔ شجاعت عربوں میں اپنی معراج پر تھی۔ ان کی بہادری درحقیقت سفاکی کے درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ کسی عرب کے لیے میدان جنگ میں تلوار کی دھار پر کٹ مرنا عزت اور شرافت کی بات تھی ،اور بستر پر ناک رگڑ رگڑ مرنا ذلت اور گالی سمجھا جاتا۔ نہ صرف مرد بلکہ عورتیں بھی میدان جنگ میں مردوں کے دوش بدوش حصہ لیتیں۔

سخاوت میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ کبھی کبھی تو اپنے پاس کا آخری روپیہ تک سائل کے حوالے کردیا جاتا۔ مہمان نواز اس درجے کے تھے کہ اگر کسی کے پاس صرف ایک اونٹ گزر بسر کے لئے ہوتا اگر مہمان آ جاتے تو اسے ذبح کرکے مہمانوں کو کھلا دیا جاتا۔عرب آزادی کے دلدادہ تھے اور اپنی آزادی برقرار رکھنے میں کسی قربانی سے دریغ نہ کرتے تھے۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ روم و ایران کی عظیم سلطنتوں کے بیچ میں ہونے کے باوجود کوئی ان کو محکوم نہ بنا سکا۔عرب آخر درجے کے وفا پیشہ تھے۔ عہد و پیمان کی پابندی کو فرض سمجھا جاتا تھا اور ایفاۓ عہد میں اپنی جان و مال اور اولاد تک کو قربان کر دیا جاتا تھا۔ جب کسی کو پناہ دے دیتے تو اپنی جان قربان کر دیتے مگر اپنی پناہ میں آۓ شخص پر ایک آنچ نہ آنے دیتے۔

شائد عرب قوم کی یہ امتیازی صفات ہی تھیں کہ جن کی وجہ سے اللہ نے اس قوم کو اسلام کی داعی قوم کے طور پر فضیلت بخشی۔ بلاشبہ عرب قوم بدکاری و بے حیائی کی دلدل میں مکمل طور ڈوبی ہوئی تھی۔ مگر یہ سب وہ بری صفات تھیں جو ان کی فطرت میں شامل نہ تھیں اور انہیں ختم بھی کیا جاسکتا تھا اور اسلام کے ظہور کے بعد ختم ہو بھی گئیں۔ مگر کسی قوم کو نہ تو کوشش سے بہادر بنایا جاسکتا ہے نہ ہی امانت دار اور نہ ہی حریت و آزادی کا متوالا۔ یہ وہ صفات ہیں جن سے عرب قوم کو اللہ نے خوب خوب نواز رکھا تھا اور جب اسلام قبول کرنے کے بعد عرب قوم اپنی اخلاقی گراوٹ سے نکلی اور ان صفات میں جب اسلامی جذبہ جہاد کی روح بھی پھونک دی گئی تو پھر دنیا میں ان کی شجاعت اور تلوار کی بہادرانہ کاٹ کا کسی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔

پیچھے عربوں کے معاشی اور معاشرتی حالات بیان کئے گئے اب مختصرََا اس دور کے سیاسی حالات بیان کئے جائینگے۔

ظہور اسلام سے پہلے عرب قبائلی نظام میں تقسیم تھے ،اور سرزمین عرب کے ریگستانوں میں دانہ ہاۓ تسبیح کی طرح بکھرے ہوۓ تھے۔ قبائل کا سیاسی نظام نیم جمہوری تھا۔ قبیلہ کا ایک سردار مقرر ہوتا جس کی شجاعت، قابلیت اور فہم و فراست کے علاوہ سابقہ سردار سے قرابت داری کا بھی لحاظ رکھا جاتا۔ تمام لوگ اپنے سردار کی اطاعت کرتے۔ تاہم سردار قبیلہ کے بااثر لوگوں سے صلاح مشورہ بھی کرلیتا۔

عرب قوم چونکہ اکھڑ مزاج قوم تھی، تو بعض اوقات کسی معمولی سی بات پر اگر دو مختلف قبیلے کے افراد میں جھگڑا ہوجاتا تو اسے پورے قبیلے کی انا کا مسئلہ بنا لیا جاتا ۔اور پھر مخالف قبیلے کے خلاف اعلان جنگ کر دیا جاتا۔ بسا اوقات یہ جنگیں مدتوں جاری رہتیں۔ مثلََا بنو تغلب اور بنو بکر میں بسوس نامی ایک اونٹنی کو مار ڈالنے پر جنگ کا آغاز ہوا اور یہ جنگ پھر چالیس برس تک جاری رہی۔

جب ہم جزیرہ نما عرب کے اطراف پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک طرف روم کی عظیم بازنطینی سلطنت اور دوسری طرف ایران کی عظیم ساسانی سلطنت نظر آتی ہے۔ جزیرہ نما عرب کو ایک لحاظ سے ان دو عظیم ہمسایہ حکومتوں کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کا درجہ حاصل تھا۔ اہل عرب ان دو ہمسایہ سلطنتوں کو اسدین غالب (دو طاقتور غالب شیر) کہا کرتے تھے۔اس وقت یہ دنیا کی دو سب سے طاقتور ترین اقوام تھیں۔ جو کئی صدیوں سے آپس میں برسر پیکار تھیں۔ کبھی رومی ایرانیوں کو پامال کرتے ہوۓ شکست فاش سے دوچار کر دیتے اور کبھی میدان جنگ میں ایرانیوں کی فتح کے طبل بجتے۔ روم کی بازنطینی سلطنت کا حکمران قیصر کے لقب سے حکومت کرتا جبکہ ایران کی ساسانی سلطنت کا حکمران کسریٰ کہلاتے۔ آپ ﷺ کے دور میں روم پر قیصر ہرقل کی حکومت تھی۔ جبکہ ایران پر آپ ﷺ کے بچپن میں مشہور ایرانی بادشاہ نوشیرواں کی حکومت تھی۔ جبکہ اس کے بعد خسرو پرویز ایران کا شہنشاہ بنا جس نے آپ ﷺ کے تبلیغی خط کو پھاڑنے کی گستاخی کی تھی۔

یہاں میں عربوں کی تاریخ اور آپﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت سرزمین عرب کے عمومی حالات کا سلسلہ تمام کرتا ہوں۔

شروع کی اقساط میں قریش مکہ کی تاریخ بیان کی گئی۔ جس میں آپ ﷺ کے آباء و اجداد کا مختصر ذکر بھی آیا اب ان کا دوبارہ تفصیلی ذکر کیا جارہا ہے۔

آپﷺ کا سلسلہ نسب بہت سی تاریخی شہادتوں اور حوالوں کے مطابق چالیس پشت بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ تاہم آپﷺ کے تمام تر بزرگوں کے ناموں کے متعلق مستند معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آپ کا سلسلہ نسب حضرت عدنان تک جا کر روک دیا جاتا ہے۔ حضرت عدنان حضرت اسماعیل علیہ السلام سے کوئی بیس پشت بعد پیدا ہوۓ۔ انہی کے نام پر بنو اسماعیل کو بنو عدنان بھی کہا جاتا ہے۔

حضرت عدنان تک آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے؛

حضرت محمدﷺ بن عبداللہ بن عبدالمطلب (شَیْبَہ) بن ہاشم (عمرو ) بن عبد مناف (مغیرہ) بن قصی (زید) بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لُوی بن غالب بن فِہر بن مالک بن نضر (قیس) بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ (عامر ) بن الیاس بن مضر بن نِزار بن مَعَد بن عَدْنان

ابن ہشام ۱/۱ , ۲ تاریخ الطبری ۲/۲۳۹-۲۷

عدنان سے اوپر کے سلسلۂ نسب کی صحت پر اہل سِیر اور ماہرینِ انساب کا اختلاف ہے۔ کسی نے توقف کیا ہے اور کوئی قائل ہے یہ عدنان سے اوپر ابراہیم علیہ السلام تک منتہی ہوتا ہے۔

عدنان بن أد بن ہمیسع بن سلامان بن عوص بن یوز بن قموال بن أبی بن عوام بن ناشد بن حزا بن بلداس بن یدلاف بن طابخ بن جاحم بن ناحش بن ماخی بن عیض بن عبقر بن عبید بن الدعا بن حمدان بن سنبر بن یثربی بن یحزن بن یلحن بن أرعوی بن عیض بن ذیشان بن عیصر بن أفناد بن أیہام بن مقصر بن ناحث بن زارح بن سمی بن مزی بن عوضہ بن عرام بن قیدار بن ۔اسماعیل علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام

طبقات ابن سعد ۱/۵۶،۵۷.. تاریخ طبری ۲/۲۷۲

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر کے سلسلۂ نسب میں یقینا کچھ غلطیاں ہیں۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام تک جاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام بن تارح (آزر ) بن ناخور بن ساروع (یاساروغ) بن راعو بن فالخ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن اخنوخ (کہا جاتا ہے کہ یہ ادریس علیہ السلام کا نام ہے) بن یرد بن مہلائیل بن قینان بن آنوشہ بن شیث علیہ السلام بن آدم علیہ السلام

ابن ہشام ۱/۲-۴ تاریخ طبری ۲/۲۷۶

بعض ناموں کے متعلق ان مآخذ میں اختلاف بھی ہے اور بعض نام بعض مآخذ سے ساقط بھی ہیں۔

تذکرۂ خانوادۂ نبی کریمﷺ (حصہ اول)

نبی کریم ﷺ کا خانوادہ اپنے جد اعلیٰ ہاشم بن عبد مناف کی نسبت سے خانوادۂ ہاشمی کے نام سے معروف ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خانوادۂ نبی کریم ﷺ کے بعض نام اور افراد کے مختصر حالات پیش کر دیئے جائیں۔

قصی بن کلاب

قصی بن کلاب آپ ﷺ سے پانچ پشت پہلے کے بزرگ ہیں۔ دراصل یہی قصی بن کلاب ہیں جنہوں نے نہ صرف بنو خزاعہ سے خانہ کعبہ کی تولیت کا حق واپس لیا بلکہ اپنی قوم بنی اسماعیل اور قبیلے بنی قریش کو منظم و متحد کرکے مکہ کو ایک باقائدہ ریاستی شہر کی شکل دی۔ خانہ کعبہ کی تولیت ایک ایسا شرف تھا جس کی وجہ سے قصی بن کلاب اور ان کی آل اولاد کو نہ صرف مکہ بلکہ پورے جزیرہ نما عرب میں ایک خصوصی سیادت اور عزت و احترام کا درجہ حاصل ہوگیا۔ قصی بن کلاب نے خود کو اس کا اہل ثابت بھی کیا۔ قصی بن کلاب کو بلامبالغہ مکہ کی شہری ریاست کا مطلق العنان بادشاہ کا درجہ حاصل تھا۔ انہوں نے نہ صرف خانہ کعبہ گرا کر نئے سرے سے اس کی تعمیر کرائی بلکہ پہلی دفعہ اس پر کجھور کے پتوں سے چھت بھی ڈالی۔ اس کے علاوہ خانہ کعبہ کے جملہ انتظام کا جائزہ لے کر اس میں ضروری اصلاحات بھی کیں۔ دوسری طرف خانہ کعبہ کے پاس ہی ایک عمارت تعمیر کرائی جسے دارالندوہ کا نام دیا گیا۔

یہاں بنو اسماعیل اور مکہ کے دوسرے قبائل کے سرداروں اور عمائدین کے ساتھ ملکر مختلف امور کے متعلق بحث و تمحیث کے بعد فیصلے کیے جاتے۔ قریش جب کوئی جلسہ یا جنگ کی تیاری کرتے تو اسی عمارت میں کرتے۔ قافلے یہیں سے تیار ہو کر باہر جاتے نکاح اور دیگر تقریبات کے مراسم بھی یہیں ادا ہوتے۔ اس کے علاوہ مختلف ریاستی امور نبٹانے کے لیے چھ مختلف شعبے قائم کئے اور ان کا انتظام اپنے بیٹوں میں تقسیم کر دیا۔ جسے ان کی وفات کے بعد ان کے پوتوں نے باھمی افہام و تفہیم سے چھ شعبوں سے بڑھا کر دس شعبوں میں تقسیم کرکے آپس میں بانٹ لیا۔

حضرت ہاشم بن عبدمناف

حضرت ہاشم بن عبد مناف قصی بن کلاب کے پوتے تھے۔ جب عبد مناف اور بنو عبد الدار کے درمیان عہدوں کی تقسیم پر مصالحت ہوگئی تو عبدمناف کی اولاد میں حضرت ہاشم ہی کو سِقَایہ اور رِفادہ یعنی حجاج کرام کو پانی پلانے اور ان کی میزبانی کرنے کا منصب حاصل ہوا۔ حضرت ہاشم بڑے مالدار اور نہایت ہی جلیل القدر بزرگ تھے۔ ان کا اصل نام عمرو تھا چونکہ ان کے زمہ حاجیوں کے کھانے پینے کا انتظام بھی تھا، تو وہ ان زائرین کی تواضع ایک خاص قسم کے عربی کھانے سے کرتے۔ جسے ہشم کہا جاتا تھا (عربی زبان میں ہشم شوربہ میں روٹیاں چورا کرنے کو کہتے ہیں)۔ مکہ میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے تمام اہل مکہ کے لئے یہی شوربہ تیار کرایا۔ جس پر انہیں ہاشم کا لقب ملا اور تاریخ نے پھر انہیں اسی لقب سے یاد رکھا۔ ان کی اولاد قریش کے معزز ترین قبیلہ بنو ہاشم کے نام سے مشہور ہے۔ انہوں نے قریش کے تجارتی قافلے شروع کروائے اور ان کے لئے بازنطینی سلطنت کے ساتھ معاہدے کئے۔ جن کے تحت قریش بازنطینی سلطنت کے تحت آنے والے ممالک میں بغیر محصول ادا کئے تجارت کر سکتے تھے اور تجارتی قافلے لے جا سکتے تھے۔ یہی معاہدے وہ حبشہ کے بادشاہ کے ساتھ بھی کرنے میں کامیاب ہوئے۔ جس کا تمام قریش کو بے انتہا فائدہ ہوا اور ان کے قافلے شام حبشہ ترکی اور یمن میں جانے لگے۔ ایک بار تجارت کی غرض سے شام گئے دوران سفر یثرب (جس کا نام بعد میں مدینہ یا مدینۃ الرسول ﷺ ہوا) میں ٹھہرے۔ وہاں قبیلہ بنی نجار کی ایک خاتون سَلْمیٰ بنت عَمْرو سے شادی کرلی اور کچھ دن وہیں ٹھہرے رہے۔ پھر بیوی کو حالتِ حمل میں میکے ہی میں چھوڑ کر ملک شام روانہ ہوگئے۔ غالبا ان کا ارادہ تھا کہ واپسی پر ان کو مدینہ سے مکہ لے جائیں گے مگر شادی سے چند ماہ بعد دوران سفر ہی ان کا انتقال فلسطین کے علاقے غزہ میں ہوگیا۔

✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے……

Categorized in:

History, Uncategorized,

Last Update: July 2, 2022