مولانا صفی الرحمان مبارکپوری
تذکرۂ خانوادۂ نبی کریمﷺ (حصہ دوم)
حضرت عبد المطلب
پچھلی قسط میں حضرت ہاشم کے سفر شام یثرب (مدینہ) میں نکاح اور پھر فلسطین میں وفات کا ذکر کیا گیا۔ ان کی وفات کے بعد 497 ء میں ان کی زوجہ سلمیٰ سے ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ چونکہ بچے کے سر کے بالوں میں سفیدی تھی اس لئے جنابہ سلمیٰ نے اس کا نام شَیْبہ رکھا، اور یثرب (مدینہ) میں اپنے میکے ہی کے اندر اس کی پرورش کی۔ آگے چل کر یہی بچہ عبد المُطَّلِبْ کے نام سے مشہور ہوا۔ عرصے تک خاندانِ ہاشم کے کسی آدمی کو اس کے وجود کا علم نہ ہوسکا۔
سِقَایہ اور رِفادہ کا منصب ہاشم کے بعد ان کے بھائی مطلب کو ملا۔ یہ بھی اپنی قوم میں بڑی خوبی واعزاز کے مالک تھے۔ ان کی سخاوت کے سبب قریش نے ان کا لقب فیاض رکھ چھوڑا تھا۔ جب شیبہ یعنی عبدالمطلب سات یا آٹھ برس کے ہوگئے تو مطلب کو ان کا علم ہوا ،اور وہ انہیں لینے کے لئے روانہ ہوئے۔ جب یثرب کے قریب پہنچے اور شیبہ پر نظر پڑی تو اشک بار ہوگئے۔ انہیں سینے سے لگا لیا اور پھر اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر مکہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ مگر شیبہ نے ماں کی اجازت کے بغیر ساتھ جانے سے انکار کردیا۔ اس لئے مطلب ان کی ماں سے اجازت کے طالب ہوئے۔ آخر ماں نے اجازت دے دی اور مُطَّلِب انہیں اپنے اونٹ پر بٹھا کر مکہ لے آئے۔ مکے والوں نے دیکھا تو کہا یہ عبدالمطب ہے یعنی مُطَّلب کا غلام ہے۔ مطلب نے کہا نہیں نہیں یہ میرا بھتیجا یعنی میرے بھائی ہاشم کا لڑکا ہے، پھر شَیبہ نے مطلب کے پاس پرورش پائی اور جوان ہوئے۔
مکہ آنے کے کچھ عرصہ بعد ہی مطلب بن عبد مناف کی وفات یمن کے سفر میں ہو گئی، تو ان کے چھوڑے ہوئے مناصب عبدالمطلب کو حاصل ہوئے۔ سرداری اور کعبہ کے زائرین کی خدمت پر جو مطلب بن عبد مناف نے حضرت عبد المطلب کے سپرد کی تھی نوفل بن عبد مناف نے قبضہ کرنا چاہا۔ حضرت عبد المطلب نے قریش کی مدد طلب کی مگر شنوائی نہ ہوئی۔ اس کے بعد حضرت عبد المطلب نے اپنے ماموں ابو سعد (ان کا تعلق بنو نجار سے تھا) کی مدد طلب کی جو 80 گھڑ سواروں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے آئے۔ انہوں نے نوفل بن عبد مناف سے کہا کہ اے نوفل اگر تو نے عبد المطلب سے چھینا جانے والا حق انہیں واپس نہ کیا تو میں تلوار سے تمہاری گردن اڑا دوں گا۔اس پر نوفل نے ان کی بات مان لی۔ اس بات پر قریش کے معززین کو گواہ بنایا گیا۔ مگرجب حضرت عبد المطلب کے ماموں واپس مدینہ چلے گئے تو نوفل بن عبد مناف نے عبد شمس بن عبد مناف (بنو امیہ ان کی نسل سے ہیں) اور اس کی اولاد کے ساتھ ایک معاہدہ کیا، اور حضرت عبد المطلب کے خلاف تحریک شروع کی۔ بنو خزاعہ نے بنو ہاشم کا ساتھ دیا اور بیت الندوہ میں بنو ہاشم سے ان کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ اس طرح قریش کی سرداری حضرت عبد المطلب کے پاس ہی رہی۔
حضرت عبدالمطلب نے اپنی قوم میں اس قدر شرف و اعزاز حاصل کیا کہ ان کے آباؤ اجداد میں بھی کوئی اس مقام کو نہ پہنچ سکے تھے۔ قوم نے انہیں دل سے چاہا اور ان کی بڑی عزت و قدر کی۔
حضرت عبداللہ (رسول اللہﷺ کے والد محترم)
حضرت عبدالمطلب کے کل دس بیٹے اور چھ بیٹیاں تھے جن کے نام یہ ہیں۔
حارث، زبیر، ابوطالب ،عبداللہ ،حمزہ (رضی اللہ عنہ)
ابولہب، غَیْدَاق، مقوم، صفار اور عباس (رضی اللہ عنہ)
ام الحکیم (ان کا نام بیضاء ہے) بَرّہ ،عَاتِکہ ،اَروی ، اُمَیْمَہ اور صفیہ (رضی اللہ عنہا)
حضرت عبداللہ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا اور وہ عمرو بن عائذ بن عمران بن مخزوم بن یقظہ بن مرہ کی صاحبزادی تھیں۔ عبدالمطلب کی اوّلاد میں عبداللہ سب سے زیادہ خوبصورت، پاک دامن اور چہیتے تھے، اور ذبیح کہلاتے تھے۔ ذبیح کہلانے کی وجہ یہ تھی کہ حضرت عبدالمطلب کو بہت خواہش تھی کہ وہ کثیر اولاد والے ہوں۔ چنانچہ انہوں نے منت مانی کہ اگر اللہ ان کو دس بیٹے عطا کرے گا اور وہ سب نوجوانی کی عمر تک پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کر دینگے۔ اللہ نے ان کی دعا کو شرف قبولیت بخشا اور ان کے دس بیٹے پیدا ہوئے۔ دس بیٹوں کی پیدائش کے بعد جب تمام کے تمام نوجوانی کی عمر کو پہنچے تو حضرت عبدالمطلب کو اپنی منت یاد آئی۔ چنانچہ وہ اپنے سب بیٹوں کو لیکر حرم کعبہ میں پہنچ گئے۔ جب عربوں کے مخصوص طریقے سے قرعہ اندازی کی گئی تو قرعہ حضرت عبداللہ کے نام نکلا۔ چنانچہ حضرت عبدالمطلب حضرت عبداللہ کو لیکر قربان گاہ کی طرف بڑھے۔
یہ دیکھ کر خاندان بنو ہاشم کے افراد جن کو حضرت عبداللہ سے بہت لگاؤ تھا بہت پریشان ہوۓ۔ وہ حضرت عبدالمطلب کے پاس آۓ اور انہیں اس سلسلے میں یثرب (مدینہ) کی ایک کاہنہ عورت سے مشورہ کرنے کو کہا۔ چنانچہ جب اس کاہنہ عورت سے رابطہ کیا گیا تو اس نے اس کا حل یہ نکالا کہ حضرت عبداللہ کی جگہ خون بہا ادا کیا جاۓ۔ عربوں کے دیت (خون بہا) میں دس اونٹ دئے جاتے ہیں تو حضرت عبداللہ کے ساتھ دس دس اونٹوں کی قرعہ اندازی کی جاۓ، اور یہ قرعہ اندازی تب تک جاری رکھی جاۓ جب تک قربانی کا قرعہ اونٹوں کے نام نہیں نکلتا۔ چنانچہ ایسے ہی کیا گیا اور بالآخر دسویں بار قرعہ حضرت عبداللہ کے بجاۓ اونٹوں پر نکلا۔ اس طرح ان کی جگہ سو اونٹوں کو قربان کیا گیا۔
حضرت عبداللہ کی شادی حضرت آمنہ سے ہوئی۔ جو وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی صاحبزادی تھیں، اور نسب و رتبے کے لحاظ سے قریش کی افضل ترین خاتون شمار ہوتی تھیں۔ ان کے والد نسب اور شرف دونوں حیثیت سے بنو زہرہ کے سردار تھے۔ وہ مکہ ہی میں رخصت ہو کر حضرت عبداللہ کے پاس آئیں۔ مگر تھوڑے عرصے بعد حضرت عبداللہ کو حضرت عبدالمطلب نے کھجور لانے کے لئے مدینہ بھیجا اور وہ وہیں انتقال کر گئے۔
بعض اہل سِیر کہتے ہیں کہ وہ تجارت کے لئے ملک شام تشریف لے گئے تھے۔ قریش کے ایک قافلے کے ہمراہ واپس آتے ہوئے بیمار ہو کر مدینہ اترے اور وہیں انتقال کر گئے۔ تدفین نابغہ جَعدی کے مکان میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر پچیس برس کی تھی۔ اکثر مؤرخین کے بقول ابھی رسول اللہﷺ پیدا نہیں ہوئے تھے۔ البتہ بعض اہل سیر کہتے ہیں کہ آپﷺ کی پیدائش ان کی وفات سے دو ماہ پہلے ہوچکی تھی۔
پیچھے ھم نے آپ ﷺ کے دادا حضرت عبدالمطلب کے بچپن اور پھر قریش مکہ کا سردار بننے کا ذکر کیا گیا۔ اب ان کی زندگی میں پیش آنے والے دو اہم تاریخی واقعات کا ذکر کیا جاۓ گا۔ جن میں سے ایک واقعہ عام الفیل ہے جب یمن کا حکمران ابرھہ بن اشرم ایک لشکرجرار کے ساتھ خانہ کعبہ ڈھانے کی نیت سے مکہ پر چڑھ دوڑا تھا۔ مگر اللہ نے چھوٹے چھوٹے پرندوں کے ذریعے اسے عبرت ناک انجام تک دوچار کیا (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ پہلے میں بیان ہوچکا ہے)
دوسرا اہم واقعہ چاہ زمزم کی ازسرنو کھدائی تھی۔ دراصل مدتوں پہلے جب مکہ پر قبیلہ بنو جرہم قابض تھا تو چاہ زمزم پر ملکیتی جھگڑے کی وجہ سے اسے مٹی سے پاٹ دیا گیا، اور پھر وقت گزرنے کے ساتھ اس کنویں کا بظاہر نشان تک باقی نہ رہا۔
حضرت علیؓ اپنے والد حضرت ابوطالب سے سن کر بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز جب حضرت عبدالمطلب اپنے حجرے میں سوئے تو انہوں نے خواب دیکھا کہ انہیں زمزم کا کنواں کھودنے کا حکم دیا جارہا ہے، اور خواب ہی میں انہیں اس کی جگہ بھی بتائی گئی۔ جوکہ حرم کعبہ کے اندر عین اس جگہ تھی جہاں اساف و نائلہ کے بت نصب تھے۔جب حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ اور دوسرے قبائل مکہ کے آگے اس قصے کا ذکر کیا تو ان کی بات پر کسی نے یقین نہ کیا، اور نہ ہی کھدائی کے اس کام میں ان کی کسی نے مدد کی۔ اس وقت حضرت عبدالمطلب کے صرف ایک ہی بیٹے حارث تھے جن کے ساتھ مل کر اس جگہ کو کھودنا شروع کیا۔ جہاں خواب کے ذریعے رہنمائی ہوئی تھی چار دن کے بعد پانی ظاہر ہوگیا اور زم زم کا کنواں مل گیا۔ جس میں سے مسلسل پانی ملنے لگا جو آج تک جاری ہے۔
چونکہ یہ کنواں بنیادی طور پر حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے قدموں سے جاری ہوا تھا۔ اس لئے قریش کے باقی قبائل نے اس کی ملکیت میں حصہ دار بننا چاہا۔ حضرت عبدالمطلب کا خیال تھا کہ زمزم اللہ نے ان کو عطا کیا ہے۔ اس جھگڑے کو نمٹانے کے لئے عرب کے دستور کے مطابق کسی باعلم اور دانش مند شخص پر فیصلہ چھوڑا گیا۔ قبائل کے مختلف نمائندے جن میں حضرت عبدالمطلب شامل تھے شام کو روانہ ہوئے۔ تاکہ وہاں کی ایک مشہور کاہنہ (روحانی علوم کی ماہر عورت) سے مشورہ کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب لوگ کاہنوں کی بات کو اہمیت دیتے تھے۔
یہ چھوٹا سا قافلہ ابھی مکہ سے کچھ ہی دور پہنچا تھا کہ سواۓ حضرت عبدالمطلب کے تمام لوگوں کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا ،اور شدت پیاس سے سب مرنے والے ہوگئے۔ باقی قبائل نے ان کو پانی دینے سے انکار کر دیا، اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ ان کے ساتھیوں نے کچھ قبریں بھی کھود لیں۔ تاکہ جو پہلے مر جائیں ان کو دوسرے دفنا دیں۔ اگلے دن حضرت عبدالمطلب نے فیصلہ کیا کہ موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور سفر جاری رکھنا چاہئیے۔ وہ اپنے اونٹ پر بیٹھنے لگے تو اونٹ کا پاؤں زمیں پر ایک جگہ زور سے پڑا اور کچھ زیر زمین پانی نظر آیا۔ وہاں ایک چشمہ برآمد ہوگیا جس سے انہوں نے اور دوسرے تمام قبائل نے استفادہ کیا۔یہ کرشمہ قدرت دیکھ کر سب تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے کہ ضرور کوئی غیبی طاقت حضرت عبدالمطلب کے ساتھ ہے۔ اس وقت دوسرے تمام قبائلی نمائندوں نے فیصلہ کیا کہ زم زم کے جھگڑے کا فیصلہ اللہ نے اسی جگہ حضرت عبدالمطلب کے حق میں یہ پانی جاری کرکے کیا ہے۔ اس لئے واپس مکہ جایا جائے۔یہی موقع تھا جب حضرت عبدالمطلب نے نذرمانی کہ اگر اللہ نے انہیں دس لڑکے عطا کئے اور وہ سب کے سب اس عمر کو پہنچے کہ ان کا بچاؤ کر سکیں تو وہ ایک لڑکے کو کعبہ کے پاس قربان کر دیں گے۔
حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کی شادی
حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب 545ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ کا نام فاطمہ بنت عمرو تھا. آپ دینِ حنیف (دینِ ابراہیمی) پر قائم تھے، اور ان کی بت پرستی اور کسی اخلاقی برائی (جو ان دنوں عرب میں عام تھیں) کی کوئی ایک روایت بھی نہیں ملتی۔ حضرت عبدالمطلب نے منت مانی تھی کہ اگر ان کے دس بیٹے پیدا ہوۓ اور سب کے سب نوجوانی کی عمر کو پہنچ گئے تو وہ اپنا ایک بیٹا اللہ کی راہ میں قربان کردیں گے۔ اس واقعہ کی تفصیل بھی پہلے گزر چکی ہے۔ لہٰذااس سے آگے کے واقعات کی طرف چلتے ہیں۔
حضرت عبداللہ جب قربانی سے بچ نکلے تو حضرت عبدالمطلب نے ان کی شادی کا سوچا۔ حضرت عبداللہ اپنے والد اور دادا کی طرح نہایت ہی حسین وجمیل اور وجیہہ انسان تھے۔ مکہ کی کئی شریف زادیاں ان سے شادی کی خواہش مند تھیں۔ مگر پیارے نبی حضرت محمدﷺ کی والدہ محترمہ بننے کی سعادت حضرت آمنہ بنت وہب کی قسمت میں لکھی تھی۔ان شریف زادیوں کی اس خواہش کے پیچھے صرف حضرت عبداللہ کی ظاہری شخصیت ہی وجہ نہ تھی۔ بلکہ اس کی اصل وجہ وہ نور نبوت تھا جو ان کی پیشانی میں چاند کی طرح چمکتا تھا۔ ان عورتوں میں ایک عورت حضرت خدیجہؓ کی چچا کی بیٹی اور مشہور ورقہ بن نوفل کی بہن ام قتال تھیں۔ ان کے بھائی ورقہ بن نوفل انجیل و سابقہ صحائف آسمانی کے علوم کے ماہر تھے، اور ان کی وجہ سے ام قتال جانتی تھیں کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں چمکنے والا نور نور نبوت ہے اور اسی لیے ان کی خواہش تھی کہ یہ نور ان کے بطن سے جنم لے۔
دوسری عورت ایک کاہنہ فاطمہ بنت مرالخثعمیہ تھیں۔ جنہوں نے اپنی روحانی استعداد سے جان لیا تھا کہ حضرت عبداللہ کی پیشانی میں جو نور دمکتا ہے وہ نور نبوت ہے۔ اس لئے یہ بھی حضرت عبداللہ سے شادی کی خواہشمند تھیں۔ تاہم حضرت عبدالمطلب کی نظر انتخاب حضرت آمنہ پر جاکر رکی۔ جو قبیلہ زہرہ کے سردار وہب بن عبد مناف بن زہرہ بن کلاب کی بیٹی تھیں ،اور قریش کے تمام خاندانوں میں اپنی پاکیزگی اور نیک فطرت کے لحاظ سے ممتاز تھیں۔ اس وقت وہ اپنے چچا وہب بن عبدمناف بن زہرہ کے پاس مقیم تھیں۔
حضرت عبدالمطلب وہب کے پاس گئے اور حضرت عبداللہ کے لئے حضرت آمنہ کا رشتہ مانگا۔ جسے قبول کرلیا گیا اور یوں حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ اس موقع پر خود حضرت عبدالمطلب نے بھی ایک کاہن کی کہنے پر وہب بن عبدمناف کی بیٹی ہالہ سے شادی کرلی۔ جن سے حضرت صفیہؓ اور حضرت حمزہؓ جیسے جری شیر پیدا ہوۓ۔ حضرت حمزہؓ آپﷺ کے چچا ہونے کے ساتھ ساتھ ماں کے رشتے سے خالہ زاد بھائی بھی تھے۔ کیونکہ جناب ہالہ اور حضرت آمنہ آپس میں چچازاد بہنیں بھی تھیں۔
دوسری طرف جب اس شادی کا علم ام قتال اور فاطمہ بنت مرالخثعمیہ کو ہوا تو وہ بےحد رنجیدہ ہوئیں، اور اس سعادت کو حاصل کرنے میں ناکامی پر رو پڑیں۔ان کا رونا واقعی میں حق بجانب تھا کہ نبی آخرالزماںﷺ کی والدہ ہونے کا اعزاز ساری دنیا کی قیمت سے بڑھ کر تھا، اور یہ اعزاز اللہ نے حضرت آمنہ کے نصیب میں لکھ دیا تھا۔حضرت عبداللہ کی شادی کے وقت عمر تقریباََ سترہ یا بائیس برس تھی۔ عرب میں دستور تھا کہ دولہا شادی کے بعد تین ماہ تک اپنے سسرال میں رہائش پذیر رہتا۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بھی تین ماہ اپنے سسرال میں مقیم رہے۔ بعد ازاں حضرت آمنہ کو لیکر مکہ اپنے گھر واپس آگئے۔
اسلام سے پہلے دور جہالت میں باقائدہ نکاح کا کوئی عام رواج نہ تھا۔ صرف خال خال ہی طبقہ اشرافیہ میں باقائدہ نکاح کیا جاتا۔ ورنہ عام طور پر مرد و زن کے ازدواجی تعلقات زنا کی ہی صورت تھے۔ اسلام کے بعد جن کے باقائدہ طریقے سے نکاح ہوۓ تھے ان کی شادیوں کو جائز اور صحیح سمجھا گیا، اور ایسے جوڑوں کے اسلام لانے کے بعد ان کے قبل اسلام نکاحوں کو شریعت اسلامی کے مطابق درست قرار دیتے ہوۓ آپ ﷺ نے ان کے دوبارہ نکاح کی ضرورت نہیں سمجھی تھی۔ ایسا ہی ایک صحیح اور باقائدہ نکاح حضرت عبداللہ اور حضرت آمنہ کا ہوا اسی لئے آپ ﷺ کا فرمان مبارک ہے کہ میری ولادت باقائدہ نکاح سے ہوئی ہے۔
پہلے ذکر کیا جاچکا ہے کہ آپ ﷺ کے پردادا حضرت ہاشم کے دور سے قریش مکہ کے تجارتی قافلے ایران و شام اور یمن و ہند تک جایا کرتے تھے، تو ایسا ہی ایک تجارتی قافلہ لیکر حضرت عبداللہ بھی شام کی طرف گئے۔ وہاں سے واپس مکہ کی طرف لوٹتے ہوۓ راستہ میں یثرب (مدینہ) کے قریب وہ شدید بیمار پڑگئے۔ چنانچہ وہ مدینہ میں ہی اپنے ننھیال اپنے ماموؤں کے پاس ٹھہر گئے جبکہ ان کے ہمسفر مکہ واپس آگئے۔جب حضرت عبدالمطلب نے ان کے ساتھ اپنے چہیتے بیٹے کو نہ دیکھا ،تو ان سے حضرت عبداللہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے جب حضرت عبدالمطلب کو حضرت عبداللہ کی بیماری کی بات بتائی تو حضرت عبدالمطلب بےحد پریشان ہوگئے۔ فوراََ اپنے سب سے بڑے بیٹے حارث کو یثرب حضرت عبداللہ کی خیریت معلوم کرنے بھیجا۔ لیکن جب جناب حارث یثرب پہنچے تو ان کو یہ اندوھناک خبر ملی کہ حضرت عبداللہ بیماری کی تاب نہ لاکر وفات پا چکے ہیں، اور ان کو دارالغابغہ میں دفن بھی کیا جاچکا ہے۔
جناب حارث جب یہ المناک خبر لیکر مکہ واپس آۓ تو حضرت عبدالمطلب اپنے جان سے پیارے بیٹے کی جواں موت کا سن کر شدت غم سے بےہوش ہوگئے۔ حضرت آمنہ پر اپنے محبوب شوہر کی موت کا سن کر سکتہ طاری ہوگیا۔ دوسری طرف سب بہن بھائی اپنی اپنی جگہ اس دکھ کے ہاتھوں بے حال تھے۔ خاندان بنو ہاشم پر ایک مجموعی سوگ کا عالم چھا گیا۔ کیونکہ حضرت عبداللہ اپنے حسن و جمال لیاقت کردار اور نابغہ روزگار شخصیت کی وجہ سے سارے خاندان کی آنکھ کا تارہ تھے۔ مگر یہ روشن ستارہ محض پچیس سال کی عمر میں ہی ڈوب گیا ،اور یوں تمام جہانوں کے لئے رحمت بننے والے اللہ کے محبوب نبی ﷺ ابھی شکم مادر میں ہی تھے کہ یتیم ہوگئے۔جواں سال اور چہیتے بیٹے کی وفات کا غم حضرت عبدالمطلب کے لئے اگر سوہان روح تھا، تو دوسری طرف محبوب شوہر کی موت کا دکھ حضرت آمنہ کے لئے لمحہ لمحہ کرب و اذیت کا باعث تھا۔ لیکن اللہ نے ان دونوں کو زیادہ عرصہ غمزدہ نہ رہنے دیا اور حضرت عبداللہ کی وفات سے چند ماہ بعد بروز سوموار 9 ربیع الاول بمطابق 20 اپریل 571 ء کو حضرت آمنہ کے ہاں اللہ کے حبیب حضرت محمد ﷺ پیدا ہوۓ۔
ایک کنیز کو فوراََ حضرت عبدالمطلب کی طرف بھیجا گیا۔ جو خوشی کے مارے دوڑتی ہوئی حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچی جو اس وقت (غالباََ) حرم شریف میں موجود تھے۔ اتنی بڑی خوش خبری کو سن کر حضرت عبدالمطلب فوراََ گھر پہنچے اور جب انہوں نے ننھے حضور کو دیکھا تو اپنی جگہ کھڑے کے کھڑے رہ گئے، اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپﷺ کے حسن و جمال کو غلمان کے حسن و جمال سے برتر بتایا۔ پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا ہے۔
*نوٹ: *نبیﷺ کی ولادت باسعادت کے متعلق علماء و محققین کی تحقیق میں اختلاف ہے۔ کچھ کے تحقیق 9ربیع الاول ہی ہے اور کچھ کے مطابق 12 ربیع الاول ہے ماہر فلکیات کی تحقیق سے بهی 9 ربیع الاول صادق آتی ہے۔ جبکہ12 ربیع الاول نبی ﷺ کے وصال پر تمام متفق ہیں۔
یہاں ان چند محیر العقول واقعات کا ذکر ضروری ہے جو آپ کی ولادت مبارکہ سے کچھ پہلے اور وقت ولادت پیش آۓ۔ اس ضمن میں ایک وہ واقعہ ہے جب نیم بیداری کے عالم میں آپ ﷺ کی پیدائش سے کچھ پہلے حضرت آمنہ دردزہ میں مبتلا تھیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ ان کے جسم سے ایک نور نکلا جس نے تمام مشرق و مغرب کو روشن کردیا۔ اس کے ساتھ ہی انہیں وضع حمل کی تکلیف سے نجات مل گئی۔ اس کے بعد وہ نور سمٹ کر ان کے قریب آیا اور انہیں ایسا محسوس ہوا جیسے اس مجسم نور نے زمین سے ایک مٹھی مٹی اٹھا کر ان کی طرف بڑھائی جو حضرت آمنہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی اور اس کے بعد اس نور نے اپنا رخ آسمان کی طرف کرلیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضرت آمنہ کے وضع حمل کے وقت وہ وہاں موجود تھیں اور انہوں نے وہاں سواۓ نور کے کچھ اور نہ دیکھا، اور باہر ستارے زمین کے اس قدر نزدیک آ گئے تھے کہ گویا زمین پر گرنے والے ہوں یہ سب ناقابل یقین تھا۔
حضرت عبدالرحمان بن عوفؓ کی والدہ آپﷺ کی ولادت کے وقت قابلہ (دائی) کی خدمات سرانجام دے رہی تھیں۔ ان کا بیان ہے کہ جب آنحضرت ﷺ اپنی والدہ کے بطن سے ان کے ہاتھ میں آۓ تو نومولود کے جسم سے ایسا نور طلوع ہوا کہ جس سے سارا حجرہ اور اس کے در و دیوار چمک اٹھے۔ اس ضمن میں ایک یہودی کا واقعہ عجیب و غریب ہے۔ ہشام بن عروہ اپنے والد اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہؓ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی مکہ میں رہ کر تجارت کرتا تھا جس روز آنحضرتﷺ کی ولادت مبارکہ ہوئی اس روز اس نے ایک مجلس میں قریش سے پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل رات تمہاری قوم میں ایک عظیم الشان بچہ پیدا ہوا ہے؟
وہ بولے نہیں تو دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ حضرت آمنہ بنت وہب کے بطن سے حضرت عبدالمطلب کے بیٹے حضرت عبداللہ کے ہاں ایک بچہ پیدا ھوا ھے۔ اس یہودی نے قریش کے لوگوں سے کہا کہ تم مجھے وھاں چل کر وہ بچہ دکھاؤ۔ یہودی کی اس درخواست پر وہ لوگ اسے حضرت عبدالمطلب کے مکان تک لے گئے جب آپ ﷺ کو اس یہودی کے سامنے لایا گیا تو لوگوں نے دیکھا کہ آپ ﷺ کا روۓ مبارک چاند سے زیادہ روشن ہے۔ یہ نور نبوت تھا جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپ ﷺ کے چہرے اور پیشانی سے ظاہر ہورہے تھے۔ دوسری طرف جب یہودی نے آپ ﷺ کی پشت کھول کر دیکھی اور اس کی نظر جب شانوں کے درمیان ایک مسّہ (مہر نبوت جس میں گھوڑے کے ایال کی طرح چند بالوں کی ایک قطار تھی) پر پڑی تو بے ہوش ہوکر گرگیا۔ جب اسے ہوش آیا تو قریش کے لوگوں نے اس سے پوچھا ارے تجھے کیا ہوا؟
وہ یہودی رو رو کر کہنے لگا آج ہم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم میں منتقل ہوگیا۔ پھر جب اس کی طبیعت سنبھلی تو اس نے قریش کو اس نعمت کی مبارک دی اور کہا کہ تمہاری سطوت کی یہ خبر اب مشرق تا مغرب پھیل جاۓ گی۔…
✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے…..