حافظ ابو نعیم اپنی کتاب دلائل النبوۃ میں ،عبدالرحمان بن ابی سعید کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ ایک روز عبدالرحمان بن ابی سعید بنی اشہل میں ٹھہرے ہوۓ تھے۔انہیں آپﷺ کی ولادت مبارکہ کی کوئی خبر نہ تھی۔ مگر اگلے روز جب وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ قبیلہ حرب میں مقام ہدنہ پہنچے تو انہوں نے یوشع نام کے ایک یہودی عالم کو کہتے سنا، میں دیکھ رہا ہوں کہ احمد نام کا ایک نبی مکہ میں پیدا ہونے والا ہے۔

یہ سن کر بنی اشہل کے ایک شخص خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے یوشع سے کہا تو مذاق تو نہیں کر رہا؟

اچھا بتا کہ اس نبی کے اوصاف کیا ہوں گے؟

یوشع بولا اس کا ظہور حرم کی طرف سے ہوگا۔ اس کا قد نہ چھوٹا ہوگا نہ بہت طویل، اس کی آنکھوں میں سرخ ڈورے ہوں گے، لباس کے ساتھ اس کے سر پر عمامہ ہوگا۔ جب خلیفہ بن ثعلبہ اشہلی نے اپنے قبیلے میں واپس جاکر یوشع یہودی کی زبان سے سنی ہوئی یہ باتیں سنائیں، تو اس کے قبیلے والے یک زبان ہوکر بولے تم ایک یوشع کی بات کرتے ہو کل سے یثرب (مدینہ) کے تمام یہودی یہی باتیں کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ مالک بن سنان بتاتے ہیں کہ وہ اس روز اپنے گھر سے اتفاقا قبیلہ بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) میں چلے گئے۔ انہوں نے وہاں دیکھا کہ بہت سے لوگ اکٹھے ہیں اور ان کا ایک عالم ” زبیر بن باطا” کہہ رہا ہے آسمان پر ایک سرخ ستارہ نمودار ہوا ہے، اور ایسا ستارہ صرف اس وقت نمودار ہوتا ہے جب کہیں کوئی نبی پیدا ہوتا ہے۔ آج جو نبی پیدا ہوا ہے اس کا نام احمد ہے جو آخری نبی کا نام ہے اور وہ ہجرت کرکے یہیں آۓ گا۔

یاد رہے کہ آپ ﷺ کے متعلق تمام مذاہب کی مذہبی کتابوں میں پیش گوئیاں موجود ہیں۔ جن کے مطابق آپ کا نام مبارک تورات و انجیل میں احمد آیا ہے۔ جب مدت بعد کسی شخص نے آنحضرت ﷺ سے زبیر بن باطا کی یہ باتیں بیان کیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا اگر زبیر بن باطا اپنی زندگی میں مسلمان ہوجاتا تو اس کی ساری قوم ایمان لے آتی کیونکہ وہ بھی اس کا اتباع کرتی۔

ابو نعیم چند دوسرے ثقہ راویوں اور زید بن ثابتؓ کے حوالے سے کہتے ہیں، کہ بنو قریظہ اور بنو نضیر کے یہودیوں کا کہنا تھا کہ سرخ ستارہ صرف دنیا کے آخری نبی کی ولادت پر طلوع ہوگا۔ اس کا نام احمد ہوگا اور وہ ہجرت کرکے یثرب (مدینہ) آۓ گا۔ ہمارے لئے اس کی اطاعت لازم ہے۔ مگر جب آنحضرت ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لے گئے، تو وہی یہودی جو اپنی مذہبی کتابوں کی پیشگوئیوں پر کہ ان کا نجات دہندہ نبی عرب میں ظہور پذیر ہوگا اور وہ فلسطین سے اسی انتظار میں یہاں مدینہ آباد ہوگئے تھے۔ صرف اس حسد کی بنا پر کہ نبی آخرالزماں ان کی قوم بنی اسرائیل کے بجاۓ بنی اسمائیل میں کیوں پیدا ہوئے، نہ صرف اپنے قول سے پھر گئے بلکہ جانتے بوجھتے اپنے کفر پر بھی قائم رہے۔

ان واقعات کے علاوہ چند اور عجیب ترین واقعات ولادت مبارکہ کے وقت شہنشاہ ایران کسری کے محل میں پیش آۓ۔ جب وہاں زلزلہ آیا اور نہ صرف محل کے چودہ کنگرے گرگئے، بلکہ ایک ہزار سال سے روشن شاہی آتش کدے کی آگ بھی یکدم بجھ گئی۔ جبکہ بحیرہ ساوہ جوش کھا کر خشک ہوگیا۔

پیچھے حضرت عبداللہ بن عبدالمطلب کی وفات اور آپﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت پیش آنے والے چند غیر معمولی واقعات بیان کیے گئے۔ اب ایسا ہی ایک غیر معمولی واقعہ جو شہنشاہ ایران کے محل میں پیش آیا بیان کیا جاۓ گا۔

حافظ ابوبکر محمد بن جعفر بن سہل الخرائطی اپنی کتاب ہواتف الجان میں مختلف حوالوں سے بیان کرتے ہیں کہ، آنحضرتﷺ کی ولادت مبارکہ کے وقت ایران کے مشہور بادشاہ نوشیرواں کے ایوان میں سخت زلزلہ آیا اور اس کے ایوان کے چودہ کنگرے (گنبد) ٹوٹ کر گر پڑے۔ اگر بات یہاں تک ہی محدود رہتی تو اسے ایک حادثہ سمجھ کر توجہ کے قابل نہ سمجھا جاتا۔ مگر اس زلزلہ کے ساتھ چند اور بہت ہی غیر معمولی اور چونکا دینے والی باتیں بھی ظہور پذیر ہوئیں۔ جن میں ایک یہ تھی کہ شاہی آتشکدے میں پچھلے ہزار سال سے روشن آگ بھی بنا کسی وجہ کے ٹھنڈی پڑگئی۔ ایک ہزار سال میں ایسا کبھی نہ ہوا تھا کہ اس مقدس آتشکدے کی آگ بجھی ہو۔ دوسری طرف بحیرہ ساوہ بھی حیران کن طور پر جوش کھا کر ابلنے والا ہوگیا۔ نوشیرواں یہ تمام واقعات دیکھ کر چونک گیا اس نے اپنے مشیر موبذان کو بلا کر یہ سب واقعات سناۓ اور اس کی راۓ طلب کی۔ موبذان نے نوشیرواں کو بتایا کہ کل رات اس نے بھی ایک عجیب خواب دیکھا ہے کہ عرب کی طرف سے انسانوں کے غول کے غول اونٹوں پر سوار فارس (ایران) کی طرف امڈے آرھے ہیں اور انہوں نے دریاۓ دجلہ کو بھی عبور کرلیا ہے۔

نوشیرواں جو پہلے ہی ان واقعات کی وجہ سے گہری سوچ میں تھا، یہ خواب سن کر پریشان ہوگیا۔ اس نے موبذان سے اس خواب کی تعبیر پوچھی۔ موبذان نے جواب میں کہا کہ چونکہ یہ سارے واقعات اور پھر یہ خواب معمولی نہیں ہیں تو بہتر ہے کہ ان کی ٹھیک ٹھیک تعبیر جاننے کے لئے کسی عالم سے رابطہ کرلینا چاہیے۔ چنانچہ نوشیرواں نے موبذان کے مشورہ پر ایک خط لکھ کر یمن میں اپنے نائب السلطنت حاکم نعمان بن منذر کو بھیجا، اور اسے حکم دیا کہ وہ فورا اس کی خدمت میں حاضر ہو، اور اپنے ساتھ کسی ایسے شخص کو لاۓ جو بڑا عالم ہو، اور نوشیرواں کے تمام سوالوں کے جواب دے سکے۔ کسر’ی ایران (ایران کے بادشاہ کا لقب کسر’ی ہوتا تھا جیسے روم کے حکمران قیصر اور مصر کے حکمران فرعون کہلاتے تھے) کا یہ شاہی فرمان ملتے ہی نممان بن منذر فورا نوشیرواں کی خدمت میں حاضر ہوگیا، اور کسر’ی کے حسب الحکم ایک بہت بڑے عیسائی عالم شخص عبدالمسیح بن عمرو بن حیان بن نفیلہ غسانی کو بھی ساتھ لے آیا۔ نوشیرواں نے عبدالمسیح بن عمرو کو تمام واقعات اور موبذان کا خواب سنایا، اور پھر انکی تعبیر پوچھی عبدالمسیح بن عمرو نے جواب دیا کہ اگر حضور چاہیں تو ان واقعات اور خواب کے بارے میں اپنا خیال ظاہر کرسکتا ہوں۔ لیکن میری گزارش ہے کہ اس کے بارے میں میرے ماموں سطیح سے جو شام میں قیصر روم کی طرف سے نائب السلطنت ہیں دریافت کیا جاۓ۔ کیونکہ وہ مجھ سے کہیں زیادہ علم والے ہیں اور کہانت کے فن میں بھی طاق ہیں، اور اس بارے میں مجھ سے بہتر بتاسکتے ہیں۔

نوشیرواں کو عبدالمسیح کی بات پسند آئی، اور اس نے اپنے کچھ آدمی اس کے ساتھ کرکے اسے اس کے ماموں سطیح کے پاس شام بھیج دیا۔ عبدالمسیح بن عمرو شام کے دارالحکومت دمشق اپنے ماموں سطیح کے دربار میں پہنچا۔ جہاں وہ اپنی ذریں مسند پر بڑی تمکنت سے بیٹھا تھا عبدالمسیح نے اسے سارے واقعات اور خواب سنا کر کہا کہ وہ شہنشاہ فارس نوشیرواں کی طرف سے آیا ہے، اور نوشیرواں کی خواہش پر ان کی تعبیر جاننا چاہتا ہے۔

عبدالمسیح کی باتیں سن کر سطیح چپ ہو گیا، اور کسی نہائت گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ عبدالمسیح نے جب کوئی جواب نہ پایا تو یہ سمجھ کر کہ سطیح نے اسکی بات کو کوئی اہمیت نہیں دی ہے، شکایتًا چند اشعار پڑھے جن میں سطیح کے عدم التفات کا گلہ کیا۔ سطیح اشعار سن کر اپنے استغراق سے باہر آیا، اور کہا جو واقعات تم نے بیان کیے ہیں اگر وہ صحیح ہیں اور جو خواب موبذان نے دیکھا ھے وہ اس نے صحیح طور پر بیان کیا ہے، تو سمجھ لو کہ ایک دن نہ صرف کسر’ی ایران کے ہاتھ سے سلطنت چھن جاۓ گی، بلکہ یہ شام جس پر میں آج کل قیصر روم کی طرف سے حاکم بنا بیٹھا ہوں یہ بھی انہی عرب ناقہ (اونٹ) سواروں کے قبضے میں چلا جاۓ گا۔ جنہیں موبذان نے خواب میں دریاۓ دجلہ عبور کرتے دیکھا ہے جب عبدالمسیح نے اپنے ماموں سطیح کا جواب نوشیرواں کو فارس واپس آکر سنایا تو نوشیرواں نے کہا کہ ابھی تو میری اولاد میں کئی پشتوں تک حکمرانی چلے گی۔ اس کے بعد جو ہوگا دیکھا جاۓ گا۔

بہرکیف تاریخ بتاتی ہے کہ کچھ عرصہ بعد سطیح کی پیشگوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی، اور آنحضرت ﷺ کی حیات مقدسہ کے آخری آیام سے فارس و روم کے خلاف جو فوج کشی شروع ہوئی وہ بلآخر تیسرے خلیفہ راشد امیرالمومنین حضرت عثمان غنیؓ کے عہد میں پایہ تکمیل کو پہنچی، اور نہ صرف ایران کی تین ہزار ایک سو چونسٹھ سال سے جاری شہنشائیت کو مجاہدین اسلام نے اپنے گھوڑوں کی سموں تلے روند دیا، بلکہ سرزمین شام پر بھی اسلامی علم لہرا دیا گیا۔

روایات کے مطابق جب آپﷺ پیدا ہوۓ تو فوراَ حضرت ام ایمنؓ کو اس خوشخبری کی اطلاع حضرت عبدالمطلب کو دینے کے لئے بھیجا گیا۔ حضرت ام ایمنؓ حضرت عبداللہ کی کنیز تھیں ان کا اصل نام برکہ تھا۔ ان کی شادی بعد ازاں آپﷺ نے اپنے غلام حضرت زید بن حارثہؓ سے کردی تھی۔ جن سے حضرت اسامہ بن زیدؓ پیدا ہوۓ۔ حضرت ام ایمنؓ خوشی کے مارے دوڑتی ہوئیں حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں، اور انہیں آپﷺ کی پیدائش کی خوشخبری دی۔ حضرت عبدالمطلب جو اس وقت حرم کعبہ میں موجود تھے۔ آپ ﷺ کی پیدائش کی خبر سن کر وہ بےحد مسرور ہوۓ، اور حضرت ام ایمنؓ کے ساتھ فوراَ گھر پہنچے۔ وہاں ننھے حضور ﷺ کے حسن و جمال کو دیکھ کر ششدر رہ گئے، اور پھر اپنے جذبات کا اظہار چند اشعار میں بیان کیا جن میں آپﷺ کے حسن و جمال کو غلمان کے حسن و جمال سے برتر بتایا۔ پھر خدا کا شکر ادا کیا کہ اس نے آپ کو حضرت عبداللہ کا نعم البدل عطا فرمایا۔

یاد رہے کہ آپ ﷺ کے والد حضرت عبداللہ، دادا حضرت عبدالمطلب اور پردادا حضرت ہاشم تینوں ہی آپ ﷺ کی طرح نہایت خوبصورت اور مردانہ وجاہت کا پیکر تھے۔

بیہقی مختلف حوالوں سے جن میں حضرت عباس بن عبدالمطلبؓ اور ان کے بیٹے حضرت عبداللہ بن عباسؓ بھی شامل ہیں، بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ مختون یعنی ختنہ شدہ پیدا ہوۓ تھے۔ جس پر حضرت عبدالمطلب نے بہت مسرت آمیز حیرت کا اظہار فرمایا۔

بیہقی نے ہی مختلف حوالوں سے یہ بھی بیان کیا ہے کہ، آپ ﷺ کی پیدائش کے بعد حضرت عبدالمطلب نے آپ ﷺ کو اپنے گھر کی عورتوں کے سپرد کر دیا۔ وہ ہر صبح کو حضرت عبدالمطلب کو بتاتیں کہ انہوں نے ایسا بچہ کبھی نہیں دیکھا۔ وہ بتاتیں کہ نومولود یعنی ننھے حضورﷺ صبح کو ہمیشہ بیدار ہی نظر آتے ہیں، اور آنکھیں کھولے ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکتے رہتے ہیں۔ اس پر حضرت عبدالمطلب خوشی کا اظہار فرماتے کہ انہیں امید ہے کہ ان کا پوتا ﷺ بڑی شان والا ہوگا۔

شروع کے چند دن آپﷺ کو آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا۔ دو تین دن بعد آپ کو دودھ پلانے کا شرف حضرت ثوبیہؓ کو نصیب ہوا۔ حضرت ثوبیہؓ آپ ﷺ کے چچا ابو لہب کی کنیز تھیں۔ ابو لہب نے آپ ﷺ کی ولادت کی خوشی میں انہیں آزاد کر دیا۔ حضرت ثوبیہؓ نے آپﷺ کے ہم عمر چچا حضرت حمزہؓ کو بھی دودھ پلایا تھا۔ ان کے علاوہ چند اور عورتوں نے بھی آپ ﷺ کو دودھ پلایا۔

افسوس کہ آپ ﷺ کی پیدائش پر خوشیاں منانے والا ابو لہب بعدازاں آپﷺ کا ایک بدترین مخالف بن کر سامنے آیا، اور وہ اور اس کی بیوی ام جمیل ساری زندگی اسلام مخالف سرگرمیوں میں مصروف رہے۔ ابولہب شروع اسلام میں آپ کا شاید سب سے بڑا مخالف تھا۔ غالباَ یہی وہ شخص ہے جس نے تب قریش مکہ کو بدراہ کیا ،اور آپ ﷺ کی بربادی کی بدعائیں دیں۔ جب آپﷺ نے کوہ صفا پر اپنی ساری قوم کو اکٹھا کرکے توحید کی دعوت دی، اسکی بیوی ام جمیل کی سیاہ کاریوں میں ایک یہ سیاہ عمل بھی شامل تھا کہ آپ ﷺ جن راستوں سے گزرنے والے ہوتے یہ ان راستوں پر کانٹے بچھا دیتی۔ ان دونوں کی مذمت میں ایک پوری سورہ نازل ہوئی، جس کا نام اسی بدبخت کے نام پر سورہ ابی لہب ہے اسکا تفصیلی ذکر آگے آئیگا۔

ولادت مبارکہ کے ساتویں دن آپ ﷺ کے عقیقہ کی رسم ادا کی گئی۔ اس موقع پر حضرت عبدالمطلب نے قریش مکہ کو دعوت دے کر شریک کیا۔ دوران مجلس قریش مکہ میں سے کسی نے دریافت کیا اے عبدالمطلب: کیا آپ نے اپنے پوتے کا کوئی نام بھی رکھا ہے؟

حضرت عبدالمطلب نے فرمایا؛ ہاں میں نے اس کا نام محمد ﷺ رکھا ہے۔

یہ نام سن کر قریش مکہ نے بہت تعجب کا اظہار کیا کہ یہ کیسا نام ہے۔ کیونکہ عرب کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی کا نام محمد نہ رکھا گیا تھا۔ اس لئے قریش مکہ کی حیرت بجا تھی اس پر حضرت عبدالمطلب نے فرمایا ہاں میں نے اس کا نام محمد رکھا ہے، اور مجھے زمین و آسماں میں ہر طرف اس نام کی گونج سنائی دے رہی ہے۔

اس زمانہ میں دستور تھا کہ شہر کے رؤساء اور شرفاء اپنے شیرخوار بچوں کو اطراف کے دیہات اور قصبات میں بھیج دیتے تھے۔ یہ رواج اس غرض سے تھا کہ بچے شہری ماحول سے دور ان دیہات اور قصبوں کے خالص بدوی ماحول میں پرورش پاکر نہ صرف خالص عربی زبان سیکھ سکیں، اور اپنے اندر فصاحت و بلاغت کا جوہر پیدا کرسکیں، بلکہ وہاں چند سال رہ کر عربوں کی خالص خصوصیات بھی اپنے لاشعور میں سمو سکیں۔

شرفاء عرب نے مدتوں اس رسم کو محفوظ رکھا۔ یہاں تک کہ بنو امیہ نے دمشق میں پایہ تخت قائم کیا اور شاہانہ شان و شوکت میں کسری و قیصر کی ہمسری کی۔ تاہم ان کے بچے حسب معمول صحراؤں میں بدوؤں کے گھر ہی پرورش پاتے رہے۔ لیکن خلیفہ ولید بن عبدالملک جب کچھ خاص اسباب کی وجہ سے وہاں نہ جا سکا اور حرم شاہی میں ہی پلا، تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ عربی کی فصاحت و بلاغت سے محروم ہوگیا، اور بنوامیہ میں وہ واحد خلیفہ تھا جسے فصیح و بلیغ عربی صحیح طرح سے بولنا نہیں آتی تھی۔ غرض اس دستور مذکورہ کی خاطر اطراف کے دیہات و قصبات سے عورتیں سال میں دو مرتبہ شہروں کا رخ کرتی تھیں۔ جہاں شھر کے شرفاء اور رؤساء اپنے بچے ان کے حوالے کر دیتے ،اور ساتھ میں معاوضہ کے طور پر ان عورتوں کو اتنا کچھ روپیہ پیسہ مل جاتا کہ ان کی زندگی بھی آرام سے گزرتی۔

اسی دستور کے موافق آنحضرت ﷺ کی پیدائش مبارکہ کے چند روز بعد قبیلہ بنو ہوازن کی چند عورتیں شیرخوار بچوں کی تلاش میں مکہ آئیں۔ ان میں سے ایک حضرت حلیمہ سعدیہؓ بھی تھیں۔ اتفاق سے باقی سب عورتیں تو بچے حاصل کرنے میں کامیاب رہیں مگر حضرت حلیمہ سعدیہؓ بوجوہ بچہ حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔اب وہ کیوں ناکام رہیں اور پھر کیسے آپ ﷺ تک پہنچیں۔ اس کے متعلق کتب تاریخ میں حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی زبانی بیان کئے گئے نہائت ہی دلچسپ واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔ چونکہ یہ واقعات تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت ہےحضرت حلیمہ سعدیہؓ اپنی چند ہم قبیلہ عورتوں کے ساتھ مکہ وارد ہوئیں، وہ کیسے آپ ﷺ تک پہنچیں ضرت حلیمہ سعدیہؓ کی زبانی وہ سب دلچسپ واقعات بیان کئے جائینگے۔

ابن اسحق جہم بن ابی جہم کی روایت سے حضرت عبداللہ بن جعفر بن ابو طالبؓ کی باتیں بیان کرتے ہیں، کہ انہیں حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے خود یہ سارا واقعہ سنایا۔ حضرت حلیمہ سعدیہؓ بیان کرتی ہیں کہ جب قبیلہ بنی سعد (بنو ہوازن اسی بڑے قبیلہ کا ایک ذیلی قبیلہ تھا جس سے حضرت حلیمہ سعدیہؓ کا تعلق تھا) میں کسی سال مکہ میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر پہنچتی تھی، تو بنی سعد کی عورتیں ان بچوں کو اجرت پر دودھ پلانے کے لیے مکہ کی طرف لپکنے لگتی تھیں۔ پھر ایک سال ایسا ہی ہوا کہ مکہ کے معزز اور شریف خاندانوں میں کئی بچوں کی پیدائش کی خبر ملی، تو بنی سعد کی دس عورتیں جن میں میں بھی شامل تھی اپنے شوہر حارث بن عبدالعزّیٰ اور اپنے ایک شیرخوار بچے کے ساتھ مکہ کی طرف چلیں۔ یہ قحط سالی کے دن تھے اور قحط نے کچھ باقی نہ چھوڑا تھا۔ میں اپنی ایک سفید گدھی پر سوار تھی اور ہمارے پاس ایک اونٹنی بھی تھی۔ لیکن واللہ اس سے ایک قطرہ دودھ نہ نکلتا تھا اِدھر بھُوک سے بچہ اس قدر بِلکتا تھا کہ ہم رات بھر سو نہیں سکتے تھے۔ نہ میرے سینے میں بچہ کے لیے کچھ تھا اور نہ اونٹنی اس کی خوراک دے سکتی تھی۔ بس ہم بارش اور خوشحالی کی آس لگائے بیٹھے تھے۔ میں اپنی گدھی پر سوار ہو کر چلی تو وہ کمزوری اور دُبلے پن کے سبب اتنی سست رفتار نکلی کہ پورا قافلہ تنگ آگیا۔

خیر ہم کسی نہ کسی طرح دودھ پینے والے بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچ گئے۔ پھر ہم میں سے کوئی عورت ایسی نہیں تھی جس پر رسول اللہ ﷺ کو پیش نہ کیا گیا ہو۔ مگر جب اسے بتایا جاتا کہ آپ ﷺ یتیم ہیں تو وہ آپ ﷺ کو لینے سے انکار کر دیتی۔ کیونکہ ہم بچے کے والد سے داد اور پیشگی کی امید رکھتے تھے۔ ہم کہتے کہ یہ تو یتیم ہے بھلا اس کی بیوہ ماں اور اس کے دادا کیا دے سکتے ہیں۔ بس یہی وجہ تھی کہ ہم آپ ﷺ کو لینا نہیں چاہتے تھے۔ ادھر جتنی عورتیں میرے ہمراہ آئی تھیں سب کو کوئی نہ کوئی بچہ مل گیا، صرف مجھ ہی کو نہ مل سکا۔ جب واپسی کی باری آئی تو مجھے خالی ہاتھ جانا اچھا نہ لگا۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا اللہ کی قسم مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میری ساری سہیلیاں تو بچے لے کر جائیں اور تنہا میں کوئی بچہ لئے بغیر واپس جاؤں۔ میں جاکر اسی یتیم بچے کو لے لیتی ہوں شوہر نے کہا کوئی حرج نہیں، ممکن ہے اللہ اسی میں ہمارے لیے برکت دے۔ یہ فیصلہ کرکے جہاں میری ساتھی عورتوں نے رات بھر کے لئے پڑاؤ ڈالا تھا، میں بھی رات گزارنے کے لئے وہیں ان کے ساتھ پڑگئی۔

وہ ساری رات میری آنکھوں میں کٹ گئی۔ کیونکہ نہ تو میرے یا میرے شوہر کے کھانے کے لئے کچھ تھا اور نہ ہی میری گدھی اور اونٹنی کے لئے چارا تھا۔ میرا شیرخوار بچہ عبداللہ ساری رات میرے پستان چچوڑتا رہا۔ لیکن چونکہ میں خود اس رات فاقہ سے تھی تو میری چھاتیوں سے دودھ کہاں سے اترتا۔ خیر وہ رات تو میں نے جیسے تیسے جاگ جاگ کاٹ لی، اور صبح ہوتے ہی وہی یتیم بچہ لینے چل دی۔ یہ بھی خیال تھا کہ اس بچے کی ماں سے اتنا تو پیشگی مل ہی جاۓ گا کہ جس سے میں اپنے اور اپنے شوہر کے لیے کھانے پینے کی کوئی چیز، اور اپنے گدھی اور اونٹنی کے لیے چارا لے سکوں گی۔ جب میں اس بچے کو لینے اس کی ماں کے پاس پہنچی تو وہ مجھ سے بڑی خندہ پیشانی سے پیش آئیں، اور اپنا بچہ مجھے دیتے ہوۓ اس کی دودھ پلائی کی جو رقم مجھے دی، وہ بھی میری توقع سے زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ وہ بچہ جسے میں یتیم سمجھ کر مجبوراً لینے آئی تھی، اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اپنی ساری زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچہ کبھی نہ دیکھا تھا۔ وہ جب ہمک کر میری گود میں آیا، اور پھر میرے سینے سے لگا تو مجھے اتنا سکون ملا کہ جس کا بیان کرنا مشکل ہے۔

جب میں بچے کو لے کر اپنے ڈیرے پر واپس آئی، اور اسے اپنی آغوش میں رکھا تو اس نے جس قدر چاہا دونوں سینے دودھ کے ساتھ اس پر اُمنڈ پڑے، اور اس نے شکم سیر ہوکر پیا۔ اس کے ساتھ اس کے بھائی نے بھی شکم سیر ہوکر پیا پھر دونوں سوگئے۔ حالانکہ اس سے پہلے ہم اپنے بچے کے ساتھ سو نہیں سکتے تھے۔ ادھر میرے شوہر اونٹنی دوہنے گئے تو دیکھا کہ اس کا تھن دودھ سے لبریز ہے۔ انھوں نے اتنا دودھ دوہا کہ ہم دونوں نے نہایت آسودہ ہو کر پیا اور بڑے آرام سے رات گزاری۔ صبح ہوئی تو میرے شوہر نے کہا حلیمہ اللہ کی قسم تم نے ایک بابرکت روح حاصل کی ہے، میں نے کہا مجھے بھی یہی توقع ہے۔اس کے بعد ہمارا قافلہ روانہ ہوا۔ میں اپنی اسی خستہ حال گدھی پر سوار ہوئی اور اس بچے کو بھی اپنے ساتھ لیا۔ لیکن اب وہی گدھی اللہ کی قسم پورے قافلے کو کاٹ کر اس طرح آگے نکل گئی کہ کوئی گدھا اس کا ساتھ نہ پکڑ سکا۔ یہاں تک میری سہیلیاں مجھ سے کہنے لگیں او ابو ذویب کی بیٹی ارے یہ کیا ہے؟

آخر یہ تیری وہی گدھی تو ہے جس پر تُو سوار ہو کر آئی تھی؟

لیکن اب اتنی تیز رفتار کیسے، میں کہتی ہاں ہاں اللہ کی قسم یہ وہی ہے۔ وہ کہتیں اس کا یقینا کوئی خاص معاملہ ہے۔…

سیرت النبی: مولانا شبلی نعمانی

سیرت المصطفیٰ: مولانا محمد ادریس کاندہلوی

الرحیق المختوم اردو: مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)

✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے….

Categorized in:

History,

Last Update: July 4, 2022