پیچھے ہم نے حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے مکہ آنے اور ننھے حضور کو اپنے ساتھ دودھ پلانے کی خاطر گاؤں لے جانے کے واقعات بیان کئے۔ اب آگے کے حالات کا ذکر کیا جاۓ گا۔ حلیمہ سعدیہ کے گھر میں کل چھ افراد رہا کرتے تھے۔ شوہر حارث، شیر خوار عبداللہ، بیٹیاں انیسہ، حذیفہ اور جدامہ (رضی اللہ عنہا) ( ان ہی کا لقب شیما تھا) ۔عبداللہ (رضی اللہ عنہ) کی قسمت کہ انہیں آپ ﷺ کے دودھ شریک بھائی کا شرف حاصل ہوا۔
جب آپ ﷺ ذرا بڑے ہوئے اور پاؤں پاؤں چلنے لگے تو شیماؓ ہی زیادہ تر آپ ﷺ کے ساتھ کھیلا کرتیں۔ اس کھیل کے دوران ایک مرتبہ شیماؓ نے آپﷺ کو بہت تنگ کیا تو غصہ میں آپ ﷺ نے ان کے کندھے پر اس زور سے کاٹا کہ دانتوں کے نشان بیٹھ گئے۔ یہ نشان ان کے لئے اُس وقت باعث رحمت بن گئے۔ جب کہ غزوۂ حنین کے بعد شیما مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ میں تمہارے رسولﷺ کی رضاعی بہن ہوں۔ جب مسلمانوں نے انہیں حضورﷺ کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے بچپن کا واقعہ یاد دلاتے ہوئے اپنے کندھے پر دانتوں کے نشان دکھائے۔ جس پر حضورﷺ کو سارا واقعہ یاد آگیا اور آپﷺ نے انہیں بڑے احترام سے اپنی چادر بچھا کر بٹھایا، اور فرمایا کہ اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بہن کی طرح رہ سکتی ہو۔ لیکن انہوں نے عرض کیا کہ وہ اپنے وطن لوٹ جانا چاہتی ہیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔ حضورﷺ نے انہیں جو عطایا دئے ان میں تین غلام، باندیاں، کچھ اونٹ اور بکریاں شامل تھیں۔ ان چاروں میں سے جناب عبداللہؓ اور شیماؓ کا اسلام لانا تو ثابت ہے، لیکن باقی دو کا حال معلوم نہیں۔ جبکہ جناب حارثؓ آپﷺ کی بعثت کے بعد مکہ آۓ تو تب اسلام قبول کرلیا تھا۔
حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے ساتھ جو غیر معمولی واقعات مکہ سے واپسی پر شروع ہوۓ، وہ ان کے گھر پہنچنے پر بھی جاری رہے۔ مریل اور بوڑھی اونٹنی کے تھنوں میں دودھ بھر آیا، حالانکہ اس سے قبل بڑی مشکل سے گزارے کے لئے دودھ آتا تھا۔ حضرت حلیمہؓ کہا کرتی تھیں کہ اللہ تعالیٰ آپﷺ کے سبب خیر و برکت سے ہمارے گھرانے کو نوازتا رہا۔ خود حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے دودھ کم اترتا تھا اور خود عبداللہ کے لئے بھی مشکل سے پورا پڑتا تھا۔ لیکن یہ آنحضرتﷺ کے وجود مبارکہ کی برکتیں ہی تھیں کہ آپ کے آتے ہی حضرت حلیمہ سعدیہؓ کی چھاتیوں میں اتنا دودھ اتر آیا، کہ جس کا انہوں نے اس سے پہلے سوچا بھی نہ تھا۔ لیکن اس زمانے میں بھی ننھےحضورﷺ کی منصف مزاجی اور عدل پسندی کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی ایسا نہ کیا کہ ایک پستان کا دودھ پی کر دوسرے سے بھی پی لیں۔ بلکہ دوسری پستان کا دودھ اپنے دودھ شریک بھائی عبداللہؓ کے لئے چھوڑ دیتے۔ اس کے علاوہ حضرت حلیمہ سعدیہؓ جب تک آپ کو دودھ پلاتی رہیں ایسا کبھی نہ ہوا کہ ان کا کوئی بستر یا کوئی دوسرا کپڑا آپ کے بول و براز سے خراب ہوا ہو۔
آپﷺ کے دم سے ظہور پذیر برکتیں صرف حضرت حلیمہ سعدیہؓ تک محدود نہ تھیں، بلکہ اس کا دائرہ ان کے گھر سے وسیع ہو کر اڑوس پڑوس کے گھروں تک بھی پہنچنے لگا۔ قحط اور خشک سالی کی بدولت بنو سعد کے گھرانے کی تمام زمینیں بنجر ہو گئی تھیں، اور جانوروں کے تھن دودھ سے محروم ہو گئے تھے۔ لیکن اللہ کے ہونے والے نبی ﷺ کے قدم کی برکت سے تمام زمینیں شاداب ہو گئیں، اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ بھر آیا۔ بستی والے چرواہوں سے کہا کرتے کہ تم بھی اپنی بکریاں وہاں لے جاؤ جہاں حلیمہ سعدیہؓ کے جانور چرتے ہیں۔
ایک مرتبہ حضرت حلیمہؓ آپﷺ کو عکاظ کے میلہ میں لے گئیں۔ وہاں ایک کاہن کی نظر آپ پر پڑی تو پکار پکار کر کہنے لگا کہ اے عکاظ والوِ اس بچہ کو جان سے مار ڈالو ورنہ یہ بڑا ہو کر تم سب کو مٹا دے گا۔ حضرت حلیمہؓ یہ سنتے ہی آپﷺ کو لے کر فوراً وہاں سے چلی گئیں۔
حضرت حلیمہ سعدیہؓ
حضرت حلیمہؓ کا عظیم مقام ہے۔ وہ آنحضورﷺ کی رضاعی والدہ ہیں۔ آپﷺ کو حضرت حلیمہ سعدیہؓ سے بےحد محبت تھی۔ مؤرخین نے بیان کیا ہے کہ بہت عرصہ بعد عہد نبوت میں ایک بوڑھی عورت آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں غربت و افلاس سے ان کا حال دگرگوں تھا۔ آپ نے فوراً پہچان لیا اور وفور شوق و محبت سے اپنی نشست سے اٹھے اور میری ماں میری ماں کہہ کر ان سے لپٹ گئے، پھر آپ نے چادر بچھا کر عزت و تکریم سے ان کو اس پر بٹھایا یہ حلیمہ سعدیہؓ تھیں۔
سیدہ حلیمہ سعدیہؓ کے بارے میں یہ روایت بھی تاریخ میں منقول ہے کہ وہ آنحضورﷺ کے دور جوانی میں، سیدہ خدیجہؓ کی موجودگی میں مکے حاضر ہوئی تھیں۔ حضرت خدیجہؓ نے ان کی خدمت میں کئی اونٹ اور اونٹنیاں پیش کی تھیں۔ مدینہ منورہ میں حاضری کے وقت نبی پاکﷺ نے بکریوں کا ایک ریوڑ اور سازو سامان سے لدی ایک ناقہ ان کی خدمت میں پیش کی۔ وہ ان تحائف سے زیادہ اس بات پر شاداں و فرحاں تھیں کہ ان کے رضاعی بیٹے کو اللہ نے اس سے بھی بلند مقام عطا فرمایا تھا۔ جس کی دعائیں اور تمنائیں وہ کرتی تھیں۔اس کے علاوہ آپﷺ کو اپنی رضاعی بہن سیدہ شیماؓ سے بہت انسیت تھی۔ آپﷺ کی شِیرخوارگی کا زمانہ میں وہی آپ کو کھلایا کرتی تھیں۔
سیدہ حلیمہ سعدیہؓ نے دو سال تک آپﷺ کو بڑی محبت سے دودھ پلایا، اور آپ کی پرورش کی آپﷺ کی نشو ونما دوسرے بچوں سے بہت اچھی تھی۔ اس لئے جسمانی اعتبار سے دو سال کی عمر میں بھی آپﷺ چار برس کے دکھائی دیتے تھے۔ دو سال کی عمر تک حلیمہ سعدیہؓ آپ کو سال میں دو بار والدہ ماجدہ حضرت آمنہ سے ملانے لے جاتیں، اور پھر واپس لاتیں۔ دو سال بعد جب آپﷺ کو واپس مکہ لے جانے کا وقت آیا تو یہ امر حضرت حلیمہؓ کے لئے بہت تکلیف کا باعث بن گیا۔ کیونکہ آپﷺ سے ان کو بےانتہا محبت تھی۔ جس کی وجہ سے آپ کی جدائی برداشت کرنا ان کے لیے کوئی آسان کام نہ تھا۔ حضرت حلیمہؓ فرماتی ہیں؛
جب دو سال گزر جانے پر میں آپ کو لے کر حضرت آمنہ کے پاس مکہ پہنچی، تو آپ کی جدائی کے غم میں میری آنکھوں سے بےتحاشہ آنسو بہ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر حضرت آمنہ بولیں کیا تم اسے اپنے پاس کچھ دیر اور رکھنا چاہتی ہو؟ ان کی زبان سے یہ سن کر میں خوشی سے بےحال ہوکر بولی۔ اگر آپ چند مہینے اسے میرے پاس اور رہنے دیں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی۔ میری اس درخواست پر حضرت آمنہ نے بخوشی مجھے اس کی اجازت دے دی۔
حضرت آمنہ کے اس فیصلے کی ایک بڑی اور غالباً اصل وجہ یہ تھی، کہ ان دنوں میں مکہ میں وبا پھیلی ہوئی تھی۔ حضرت آمنہ نے آپﷺ کو مکہ میں ٹھہرانا مناسب نہ سمجھا ،اور واپس حضرت حلیمہ کے ساتھ گاؤں بھجوا دیا۔ تاہم چند ماہ کا یہ فیصلہ بوجوہ کئی سالوں پر محیط ہوگیا اور آپ ﷺ حضرت حلیمہ کے پاس مذید چار سال رہے، اور چھ سال کی عمر میں ہی واپس مکہ اپنی والدہ ماجدہ کے پاس آسکے۔ چھ سال کا یہ عرصہ حضرت حلیمہ اور ان کے گھر کے لیے بےپناہ خیرو برکت کا سبب بنا رہا، اور ان کا گھر سارے قبیلے کے لیے رشک کا باعث بن گیا۔ حضرت حلیمہؓ نے جس محبت اور اپنائیت سے محمد عربیﷺ کو پالا پوسا وہ یاد گار اور تاریخی حقیقت ہے۔ یہ بھی ایک مسلّمہ امر ہے کہ نبی رحمتﷺ کے وجود مسعود سے اس خاندان کی قسمت بدل گئی۔ حضورﷺ کے قیام بنی سعد کے دوران پورے علاقے اور قبیلے میں اس سعادت مند بچے کا تذکرہ زبان زد و عام ہو گیا۔ کیونکہ برکات و انعامات کی بارش نے سبھی کو نہال کر دیا تھا۔ آپ کے اپنے خاندان میں واپس چلے جانے کے بعد بھی قبیلے اور بالخصوص حلیمہ سعدیہؓ کے گھر میں آپ کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔
واقعہ شق صدر
نبی کریمﷺ کی زندگی بہت سے محیر العقل واقعات سے بھری پڑی ہے۔ یہ واقعات آپ کی پیدائش سے پہلے بچپن میں اور نبوت کے بعد بھی رونما ہوئے۔ ایسے تمام حیران کن واقعات جو کسی نبی کو نبوت ملنے سے پہلے درپیش آئیں ارہاصات کہلاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک عجیب واقعہ نبی کریمﷺ کے ساتھ حضرت حلیمہؓ کے گھر ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال پیش آیا۔ جب اُن کا سینہ فرشتوں نے چاک کر کے اُن کا دل دھویا تھا۔ اسے شَقِّ صَدر (سینہ مبارک چاک کیے جانے) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور جس کا ذکر حضورﷺ نے ایک مجلس میں کیا تھا۔ جب کہ قبیلہ بنی عامر کے ایک بوڑھے شخص نے حضورﷺ سے اپنی ابتدائی زندگی کے حالات سنانے کی خواہش کی تھی۔
آپﷺ نے فرمایا؛
میرا شِیر خواری اور بچپن کا ابتدائی زمانہ بنی سعد بن بکر میں گزرا۔ ایک دن میں اپنے ہم عمروں کے ساتھ کھیل رہا تھا، کہ سفید پوش آدمیوں (فرشتوں) کی ایک ٹولی نے جن کے ہاتھوں میں سونے کی تھالی میں (زمزم کی) برف بھری تھی، مجھے پکڑ لیا میرے ساتھی ڈر کر بھاگ گئے۔ انہوں نے مجھے زمین پر لٹایا اور (میرے سینے یا پیٹ کے) اندرونی اجزأ نکال کر (زمزم کی) برف (کے پانی سے) سے اچھی طرح دھویا، اور پھر اپنی جگہ رکھ دیا۔ یہ منظر میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ دوسرے نے میرے سینے میں ہاتھ ڈالا اور دل کو نکالا اور اس سے ایک لوتھڑا نکال کر فرمایا یہ تم سے شیطان کا حصہ ہے پھر دل کو (سونے کی) طشت میں زمزم (کی برف) کے پانی سے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تو اچانک ایک نور کی مہر اس کے ہاتھوں میں آگئی۔ اس نے مہر دل پر لگائی تو وہ نور سے بھر گیا۔ پھر دل کو جوڑ کر اپنے مقام پر رکھ دیا۔ اب تیسرے نے سینہ سے ناف تک ہاتھ پھیرا تو زخم مندمل ہو گیا، میں اٹھ کھڑا ہوا تو تینوں نے باری باری مجھے سینے سے لگایا، اور میری پیشانی پر بوسہ دیا۔ آپﷺ کے دودھ شریک بھائی نے یہ منظر دیکھا تو دوڑ کر اپنے والدین کو اطلاع دی کہ کچھ سفید پوش آدمیوں نے میرے قریشی بھائی کا پیٹ چاک کر دیا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ فوراً وہاں گئے اور دیکھا کہ بچہ کے چہرہ کا رنگ فق ہے۔ اس واقعہ سے حضرت حلیمہؓ کو خطرہ محسوس ہوا اس لئے آپﷺ کو اپنی والدہ کے پاس پہنچانے کے لئے مکہ روانہ ہوگئے، اور حضرت آمنہ سے سارا حال بیان کیا یہ سن کر حضرت آمنہ نے کہا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں خدا کی قسم! اس پر آسیب کا کوئی اثر نہ ہو گا بلکہ یہ بچہ تو بڑی شان والا ہے۔
حضرت حلیمہ سعدیہؓ نے شق صدر کے واقعہ کے بعد آپﷺ کو چار یا پانچ سال کی عمر میں آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت کے لئے اُم ایمنؓ کو مامور کیا، جو آپ کے والد کی کنیز تھیں ان کا اصلی نام برکہ تھا۔
جب آپ ﷺ کی عمر چھ سال کی ہوئی، تو آپ ﷺ کی والدہ حضرت آمنہ حضورﷺ کو ساتھ لے کر اپنے مرحوم شوہر حضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت کے لئے یثرب (مدینہ) روانہ ہوئیں۔ دو اونٹوں پر مشتمل اس مختصر سے قافلہ میں آپﷺ کی کنیز حضرت ام ایمنؓ بھی ہمراہ تھیں۔ وہ دارالنابغہ میں اتریں جہاں حضرت عبداللہ مدفون تھے، اور ایک مہینہ وہاں قیام کیا۔ وہاں آپ ﷺ نے بنی نجار کے تالابوں میں تیرنا سیکھا، اور گڑھی کے سامنے ننھیالی لڑکوں کے ساتھ کھیلا کرتے۔ حضرت اُم ایمنؓ کا بیان ہے کہ یثرب (مدینہ) کے یہود آپﷺ کو بڑے غور سے دیکھتے، میں نے سنا کہ ان میں سے ایک کہہ رہا تھا کہ یہ اس اُمت کے نبی ہیں، اور یہی ان کا دارالحجرت ہے۔ میں نے اُن کی یہ بات ذہن میں محفوظ کرلی واپسی میں بدر کے قریب ابواء کے مقام پر حضرت آمنہ بیمار ہوئیں۔ جس کی وجہ سے اس قافلہ نے وہاں قیام کیا حضرت آمنہ نے وہیں وفات پائی۔ وقتِ آخر آپﷺ اپنی والدہ کے سرہانے بیٹھے تھے ماں نے اپنے جلیل القدر بیٹے کو جی بھر کے دیکھا اور چند شعر پڑھے جن کا متن مواہب لدنیہ میں محفوظ ہے۔ بوقت وفات حضرت آمنہ کی عمر تقریباً ۲۸ سال تھی اور وہ حضور اکرمﷺ کی ولادت کے بعد چھ سال تین مہینے تک زندہ رہیں۔
حضرت آمنہ کو اسی جگہ دفن کیا گیا، اور حضرت اُم ایمنؓ آپ کو لیکر مکہ واپس حضرت عبدالمطلب کے پاس پہنچیں۔ یوں شکم مادر میں ہی یتیم ہونے والے ننھے حضورﷺ اپنی والدہ کے ساتھ بھی زیادہ دن نہ گزار سکے۔ حضرت اُم ایمنؓ نے ایک ماں کی طرح آپﷺ کی نگرانی کی۔ ان کے بارے میں حضور اکرمﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یہ خاتون میری والدہ کے بعد میری ماں ہیں۔
حضورﷺ جب نبی بنائے گئے تو حضرت اُم ایمنؓ اولین تصدیق کرنے والوں میں سے ہو گئیں۔ حضورﷺ نے انہیں آزاد کردیا۔ ان کا پہلا نکاح بنی حارث کے عبید بن زید بن عمرو سے ہوا۔ جن سے ایمن پیدا ہوئے جن کے نام پر ان کی کنیت اُمّ ایمن تھی۔ پہلے شوہر کے انتقال کے بعد حضورﷺ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ سے ان کا نکاح کروایا۔ جن سے اُسامہ بن زیدؓ پیدا ہوئے۔ حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں حضرت اُم ایمنؓ کی وفات ہوئی۔ والدہ ماجدہ کی وفات کے بعد حضورﷺ کو آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے اپنی کفالت میں لے لیا۔ حضرت عبدالمطلب کو آپ سے بہت محبت تھی اور آپ کو سب اولادوں سے بڑھ کر محبوب جانتے تھے۔ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عبدالمطلب کو یقین تھا کہ ان کا پوتا بڑا نام پانے والا ہے۔ چنانچہ جب بنی مدلج کی ایک جماعت اُن سے ملنے آئی تو ان میں بہت سے قیافہ شناس تھے، انہوں نے جب حضورﷺ کا نقشِ کف پا دیکھا تو اسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے نقشِ کفِ پا (جو مصلیٰ ابراہیم کہلاتا ہے) کے مشابہ پایا۔ اس لئے انہوں نے حضرت عبدالمطلب سے کہا کہ اس بچے کی بطور خاص حفاظت اور نگرانی کریں چنانچہ حضرت عبدالمطلب حطیم میں اپنی نشست پر حضور ﷺ کو اپنے قریب بٹھا کر پشت پر ہاتھ پھیرا کرتے، اور کہتے کہ اس کی تو بہت بڑی شان ہے۔ دادا اپنے پوتے کو ہمیشہ ساتھ رکھتے اور اپنے ساتھ ہی کھانا کھلاتے۔ اسی سال حضرت عثمان بن عفانؓ کی ولادت ہوئی۔ حضرت عبدالمطلب کے زیر سایہ آپ کا بچپن بہت آرام سے گزر رہا تھا۔ صرف حضرت عبدالمطلب ہی نہیں بلکہ آپ سے آپ کے تمام چچا اور پھوپھیاں بھی بےحد محبت کرتی تھیں۔ لیکن اللہ کی مشیت کچھ اور تھی اور ابھی آپ اٹھ سال کے تھے کہ حضرت عبدالمطلب کا بھی انتقال ہوگیا۔ آپ کو اپنے دادا سے بہت انس و محبت تھی جب حضرت عبدالمطلب کا جنازہ اٹھا تو آپ بھی جنازہ کے ساتھ تھے، اور شدت غم سے روتے جاتے تھے۔ اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر بیاسی سال تھی۔
آٹھ سال کا ایک معصوم بچہ جس کے ماں باپ بھی وفات پا چکے، اور اب شفیق دادا بھی نہ کوئی بہن نہ کوئی بھائی تن تنہا لیکن کون جانتا تھا کہ بظاہر یہ بےآسرا معصوم بچہ کچھ ہی عرصہ بعد ہزاروں لاکھوں کا آسرا بننے والا ہے۔ بلاشک و شبہ آپ ﷺ کی زندگی کے لمحہ لمحہ میں ہمارے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔
حضرت عبدالمطلب کی وفات کا واقعہ ایک اور لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قصی بن کلاب نے جملہ امور ریاست آنحضرت ﷺ کے جد امجد عبدمناف کے حوالے کئے تھے۔ جو کہ بعدازاں ان کے بیٹے اور آپ ﷺکے پردادا حضرت ہاشم کے حصہ میں آۓ۔ دوسری طرف حضرت ہاشم کے ہی دور میں خانہ کعبہ کی تولیت کے زیادہ تر حقوق بھی حضرت ہاشم نے حاصل کرلئے، اور ان سے یہ تمام اختیارات حضرت عبدالمطلب کو بھی وراثتاَ حاصل ہوۓ۔ ان کی حیثیت اپنے والد حضرت ہاشم کی طرح مکہ کے سردار کی تھی۔ لیکن ان کی وفات نے دفعتاَ بنو ہاشم کے اس رتبہ امتیاز کو گھٹا دیا، اور کئی دھائیوں بعد یہ پہلا موقع تھا کہ دنیاوی اعتبار سے خاندان بنوامیہ، خاندان بنو ہاشم پر غالب آگیا، اور مکہ کی مسند ریاست پر حرب متمکن ہوا۔ جو امیہ کا نامور فرزند تھا حضرت ابوسفیانؓ انہی حرب بن امیہ کے بیٹے تھے، اور حرب کے بعد مکہ کے سردار اور سپہ سالار بنے۔ حرب بن امیہ نے ریاست اور تولیت خانہ کعبہ کے جملہ اختیارات اپنے قبضہ میں کرلئے، اور صرف سقایہ یعنی حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت ہی حضرت عباسؓ کے پاس باقی رہی۔ جو حضرت عبدالمطلب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
حضرت عبدالمطلب کے مختلف ازواج سے دس بیٹے تھے۔ جن میں سے آنحضرتﷺ کے والد حضرت عبداللہ اور حضرت علیؓ کے والد جنابِ ابو طالب ماں کی طرف سے سگے بھائی تھے۔ اس لئے حضرت عبدالمطلب نے آپ کو حضرت ابوطالب کے ہی آغوش تربیت میں دے دیا۔ اس کے علاوہ حضرت عبدالمطلب نے اپنی وفات کے وقت اپنی بیٹیوں یعنی آپ کی پھوپھیوں اروی’ امیمہ، برہ صفیہ، عاتکہ اور ام حکیم البیضاء کو بلا کر آنحضرت ﷺ کی پرورش اور خیال رکھنے کی وصیت کی۔ حضرت ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق حضور اکرم ﷺ کو اپنے گھر لے آئے۔ ان کی بیوی حضرت فاطمہ بنت اسد بھی حضورﷺ سے بہت محبت کرتی تھیں، اور حضورﷺ کی پرورش میں انہوں نے بڑی دلجمعی سے حصہ لیا۔ حضرت ابوطالب بھی آپ سے بہت محبت کرتے تھے اور مرتے دم تک آپ کے سر پر کسی مضبوط سائبان کی طرح سایہ کئے رکھے۔ ان کی محبت اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں اپنی سگی اولاد کی بھی پرواہ نہ کرتے، اور حضرت عبدالمطلب کی طرح ہر وقت آپ کو اپنے ساتھ ساتھ رکھتے۔ حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے اس لئے بڑی عُسرت اور تنگدستی سے گزر بسر ہوتی تھی۔ باوجود کم سِنی کے حضورﷺ نے اپنے چچا کے گھر کی یہ حالت دیکھی تو کام کاج کرنے میں کوئی عار محسوس نہ کیا۔ لوگوں کی بکریوں کو اُجرت پر چراتے اور بکریوں کو مکہ کی ایک پہاڑی اجیاد کے قریب اریقط نامی مقام پر لے جایا کرتے، اور اس سے جو کچھ اجرت ملتی وہ اپنے چچا کو دیتے۔ عرب میں بکریاں چرانا کوئی معیوب کام نہ تھا بڑے بڑے شرفاء اور امراء کے بچے بکریاں چرایا کرتے تھے، اور یہ ان بچوں کے لئے کوئی کام نہیں بلکہ ایک مشغلہ کی حیثیت رکھتا تھا ۔ عرب طرز معاشرت کا جائزہ لیا جاۓ تو اسے باآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ زمانہ رسالت میں آپ اس سادہ اور پرلطف مشغلہ کا ذکر فرمایا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ اسی جنگل میں تشریف لے گئے۔ حضرت جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ اراک (پیلو کے درخت) کے پھل چُن رہے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا جو سیاہ ہو گیا وہ لے لو کہ وہی سب سے اچھا ہوتا ہے۔ اس پر صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ کیا آپ بھی بھیڑ بکریاں چرایا کرتے تھے فرمایا ہاں کوئی پیغمبر ایسا نہیں گزرا جس نے بھیڑ بکریاں نہ چرائی ہوں دس بارہ سال کی عمر تک آپ ﷺ کا یہ مشغلہ جاری رہا۔.
سیرت النبی: مولانا شبلی نعمانی
سیرت المصطفیٰ: مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم اردو: مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)
سلســـلہ جـــاری ہــے