stanza 1
سلسلہ روز و شب ،نقش گر حادثات
سلسلہ روز و شب، اصل حیات و ممات
روز و شب کی داستان عہد کے حوالے سے اس طرح بیان کی جا سکتے ہے کہ؛
سلسلہ روز و شب یعنی رات اور دن کا سلسلہ، مراد ہے زمانہ، یہ پیدا ہونے اور مرنے والی چیزوں کے نقش تیار کرتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دن اور رات کے سلسلہ میں کتنے ہی انسان جنم لیتے ہیں اور کتنے ہی انسان وفات پا جاتے ہیں۔ یہی عمل قدرت کے نظام کا حقیقی روپ ہے۔ چناچہ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو رات اور دن کا سلسلہ یعنی زمانہ ہی زندگی اور موت کی اصل ہے۔
زمان و مکاں کے بغیر تغیرات کا تصور نہیں ہو سکتا اور تغیر کا مطلب ہے چیزوں کا پیدا ہونا اور ختم ہونا۔۔ بلکہ فلسفیوں کے نزدیک اس دنیا کے خاتمے کی دلیل یہ ہے کہ اس میں ہر چیز بدلتی رہتی ہے، کوئی پیدا ہوتی ہے تو کوئی مرتی ہے۔۔۔ جو آج پیدا ہوتی ہے تو کل مر جاتی ہے۔۔ لہذا زمانہ چیزوں کا پیدا کرنے والا اور مارنے والا ہے اور ہمارے تصورات کے مطابق یہی زندگی اور موت کا سرچشمہ ہے۔ اگر ہم زمانہ کی حد سے نکل جائیں تو موت و حیات کا یہ تصور بھی ختم ہو جائے۔
سلسلہ روز و شب، تار حریر دو رنگ
جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات
اس شعر میں اقبال نے رات اور دن کو ریشم کے دو تار بیان کیا ہے۔ ایک سیاہ، دوسرا سفید یعنی رات اور دن۔ اقبال کہتے ہیں کہ ذات کو اس کی اصل صورت میں تو دیکھا نہیں جا سکتا لیکن جب وہ صفات کا لباس پہن لیتی ہے تو اس کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ مثلآ یہ کہ وہ خالق ہے قادر ہے، پروردگار ہے، مالک ہے، حافظ ہے ، حافظ ہے، ہادی ہے وغیرہ ۔۔۔ یہ تصورات زمانے ہی کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔
سلسلہ روز و شب، ساز ازل کی فغاں
جس سے دکھاتی ہے ذات زیروبم ممکنات
کائنات کے آغاز کے ساتھ ہی زمانے کی تخلیق ممکن ہوئی ہے جس سے باری تعالیٰ کا مقصد انسان کو اس اتار چڑھاؤ سے آگاہ کرنا تھا جو اس راہ میں موجود ہوتے ہیں۔ اس شعر میں بھی اقبال نے زمانے کو “ساز ازل کی فغاں” سے تعبیر کیا ہے کہ ساز کی طرح زمانے میں بھی اتار چڑھاؤ کا عمل جاری رہتا ہے جس کے ذریعے سے قدرت متوقع ا امکانات کی نشاندہی کرتی ہے، اس کا مقصد یہی ہے کہ انسان حوالوں کی روشنی میں حقیقت کو پاسکے۔
رات اور دن کا سلسلہ وہ فریاد ہے جو ازل کے ساز سے پیدا ہوئی۔ اس سے ذات باری تعالٰی کا مدعا یہ تھا کہ کائنات میں جو صلاحیتیں رکھی گئی ہیں، وہ زیر و بم( یعنی اتار چڑھاؤ ، یا تبدیلی) کی شکل میں ظاہر ہو جائیں، یعنی روز و شب کا سلسلہ تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا اور اسی میں انسان نے ممکنات کائنات کو روشنی میں لانا شروع کیا۔ مراد یہ ہے کہ کائنات کی صلاحیتیں زمانے ہی کے سلسلے میں ظاہر ہوسکتی تھیں۔ اس شعر کے پہلے مصرع میں زمانے کو ” ساز ازل کی فغاں” کہا گیا ہے، چونکہ ساز میں زیروبم ( یعنی اونچے نیچے) سر ہوتے ہیں، اس لیے ممکنات کے ساتھ زیروبم کا لفظ استعمال کیا۔۔ کائنات کی صلاحیتوں میں بعض چیزیں بہت نمایاں ہوتی ہیں، بعض غیر نمایاں، لہذا زیروبم کا استعمال بہت موزوں معلوم ہوتا ہے۔ باقی رہا یہ امر کہ ” ساز ازل کی نوا” کی بجائے “فغاں” کا لفظ کیوں استعمال کیا؟ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اقبال کے نزدیک ساز ازل کی جو آواز تخلیق کا باعث ہوئی، وہ روحوں کے لیے اصل سے جدائی کا پیغام تھی۔
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب، صیرفی کائنات
رات اور دن کا سلسلہ کائنات کا صراف ہے یعنی وہ ہر چیز کو پرکھتا ہے۔ کھوٹا کھرا الگ کر دیتا ہے، نہ میں اس امتحان سے آزاد ہوں، نہ تو اس امتحان سے آزاد ہے۔ زمانے کی آزمائش سب کے لیے یکساں ہے۔
تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
چاہے تو ہو یا چاہے میں۔۔ کمزور اور بے حقیقت انسان کو زمانہ مٹا کر رکھ دیتا ہے۔ اس کا مقدر موت کے سوا اور کچھ نہیں۔
تیرے شب وروز کی اور حقیقت ہے کیا
ایک زمانے کی رو جس میں نہ دن ہے نہ رات
سلسلہ روز و شب کی حقیقت یا اصل زمان خالص ہے جس میں نہ دن ہے نہ رات ہے ، نہ حال ہے، نہ استقبال ۔ بس یہ زمان خالص ایک رو ہے جس میں کہیں سکون نہیں ہے۔ زمانہ کبھی نہیں بدلتا اور نہ ہی کبھی اس کا تسلسل ٹوٹتا ہے، لہذا اس کے باب میں دن اور رات کی تمیز دراصل کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔
آنی و فانی تمام معجزہ ہائے ہنر
کار جہاں بے ثبات، کار جہاں بے ثبات
انسانی ہنر مندی نے جتنی حیرت انگیز چیزیں اب تک بنائی ہیں، وہ سب تھوڑی دیر کے لیے ہیں اور جلد فنا ہو جانے والی ہیں۔ حق یہ ہے کہ سارا سلسلہ ناپائیدار ہے اور اس کائنات کی کسی شے میں قیام برقرار نہیں ہے، یعنی
اول و آخر فنا، باطن و ظاہر فنا
نقشِ کہن ہو کہ نو، منزل آخر فنا
کائنات میں انسان کی بنائی ہوئی ہر شے کی ابتداء نیستی سے ہوتی ہے اور انتہا بھی نیستی سے ہوتی ہے یعنی کسی نہ کسی دن وہ شے ضرور مٹ جائے گی، پس اول اور آخر فنا ہے۔ اسی طرح ہر مادی شے کا ظاہری پہلو بھی فانی ہے اور باطنی پہلو بھی فانی ہے۔ یعنی کے کائنات میں انسان کی بنائی ہوئی ہر شے کی آخری منزل فنا ہو جانا ہے۔
Stanza 2
ہے مگر اس نقش میں رنگ ثبات دوام
جس کو کیا ہو کسی مرد خدا نے تمام
بےشک دنیا کی ہر چیز فنا ہونے والی ہے لیکن اس نقش میں ہمیشہ کی پائیداری کا رنگ پیدا ہو جاتا ہے جو کسی مرد حق کے ہاتھ سے مکمل ہوا ہو۔ مرد حق یا مرد خدا سے وہ انسان مراد ہے جس کے تمام کام خدا کی رضا کے تابع ہوتے ہیں۔ وہ ہر کام کو عشق کی وساطت سے انجام دیتا ہے اور عشق چونکہ زمان مسلسل سے آزاد ہوتا ہے ( عشق کا تعلق زمان خالص سے ہوتا ہے) اس لیے زمان مسلسل مرد مومن کے کارناموں کو فنا نہیں کرسکتا۔
مرد خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام
سوال کیا جاسکتا ہے کہ ایسے نقش کو کیوں دائمی پائیداری حاصل ہوتی ہے؟ جواب یہ ہے کہ مرد حق کا ہر کام عشق حق کی بدولت فروغ پاتا ہے۔ عشق حق زندگی کا جوہر اور روح ہے۔ اس پر موت وارد نہیں ہوسکتی۔ اسے مٹا دینا موت کی دسترس سے باہر ہے۔
تندو سبک سیر ہے گرچہ زمانے کی رو
عشق خود اک سیل ہے، سیل کو لیتا ہے تھام
بلاشبہ زمانے کی رو بڑی ہی تیز و تند ہے اور اس کے سامنے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی۔ وہ نئی نئی صورتیں پیدا کرتا اور مٹاتا رہتا ہے۔ زمانہ اگرچہ ایک تیز لہر ہے جس کو روکنا عام حالات میں ممکن نہیں، لیکن عشق بذاتِ خود ایک تند و تیز سیلاب کی مانند ہوتا ہے، اس لیے وہ زمانہ پر غالب آجاتا ہے اور اس کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے۔
عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام
جس طرح ہمارے ہوں جنتریاں اور کیلنڈر ہوتے ہیں اور ان دونوں میں دنوں اور مہینوں کے حساب درج کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح عشق حق کی بھی ایک جنتری ہے، جس میں زمانوں کے حساب لکھے جاتے ہیں، اس جنتری پر نظر رکھیں تو صاف معلوم ہو جائے گا کہ اس میں صرف اسی زمانے کا حساب درج نہیں جو جاری ہے، بلکہ اس میں اور زمانے بھی ہیں جن کا کوئی نام نہیں بتا سکتا ۔
مراد یہ ہے کہ جو زمانہ رات اور دن کے سلسلے سے بنتا ہے، اس کی خاصیت تو بےشک یہی ہے کہ وہ چیزوں کو بناتا اور مٹاتا رہتا ہے۔ اگر عشق حق کا معاملہ اسی زمانے تک محدود ہوتا تو وہ فنا کی دسترس سے باہر نہ رہ سکتا۔ چونکہ عشق کے ہاں اور زمانے بھی ہیں ، لہذا وہ رات اور دن والے زمانے کے اثرات سے بالکل محفوظ ہے۔
عشق دم جبرئیل، عشق دل مصطفیٰ
عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام
عشق کوئی مادی یا دنیاوی شے نہیں بلکہ نہایت پاکیزہ اور روحانی بلکہ آسمانی جوہر ہے۔ اس حقیقت کو اقبال نے دم جبرئیل اور دل مصطفیٰ سے واضح کیا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عشق کی عظمت، رفعت، پاکیزگی، طہارت اور روحانیت کو بیان کرنے کے لیے ان دو ناموں سے بڑھ کر کوئی اور نام ذہن میں نہیں آسکتا۔
دنیا میں پاکیزگی، طہارت، روحانیت اور برتری کے جتنے پاکیزہ اور نورانی نمونے نظر آتے ہیں، وہ سب عشقِ حق ہی کے مختلف جلوے ہیں۔ گویا عشقِ حق مختلف لباسوں، مختلف شکلوں اور مختلف پیکروں میں تجلی ریز ہوتا ہے۔ مثلاً حضرت جبرائیل علیہ السلام کا سانس اور ان کی آواز بھی عشق ہی کا جلوہ تھا۔ حضرت سرور کائنات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے قلبِ طاہر و اطہر کا نور بھی عشقِ حق کا ایک کرشمہ تھا۔ عشق ہی خدائے پاک کا ایلچی بن کر اس دنیا میں آیا اور انسانوں کو راہِ حق پر لگایا۔ عشق ہی خدا کا کلام ہے، جس کی بدولت دلوں اور روحوں کے اندھیرے میں اجالا ہو جاتا ہے اور اخلاق کا بگڑا ہوا نقشہ اصلاح پاتا ہے۔
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام
کہتے ہیں کے مٹی کے پتلے یعنی انسان میں جو یہ تابناکی، یہ چمک دمک، یہ روشنی اور یہ روحانیت نظر آتی ہے،یہ سب عشق ہی کا کرشمہ ہے۔ یہ عشق ہی کی بدولت ہے کہ انسان نے علم و عرفان اور ہدایت و سعادت کے وہ نمونے پیش کیے، جن کی روشنی کبھی ماند نہ پڑے گی۔
عشق فقیہ حرم، عشق امیر جنود
عشق ہے ابن السبیل، اس کے ہزاروں مقام
عشق حق کبھی کے پاک باطن عالم کی شکل اختیار کرتا ہے، جو شریعت اسلامیہ کا سب سے بڑا محافظ اور شارح ہے۔
کبھی ان لشکروں کی سالاری کا فرض انجام دیتا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کے لیے تیار ہوئے ہوں۔ مومنوں کے دلوں میں جذبہ جہاد عشق ہی کی بدولت پیدا ہوتا ہے۔
عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات
عشق سے نورِ حیات، عشق سے نارِ حیات
عشق چونکہ “ابن السبیل” یعنی مسافر ہے۔ اس لیے اس کے ہزاروں مقامات ہیں۔ اقبال نے عشق کو مسافر سے تعبیر کیا ہے کیونکہ عشق ہی کی بدولت سالک روحانی منازل طے کرتا ہے۔
محض عشقِ حق ہی وہ مضراب ہے جو ساز زندگی کے تاروں سے نغمے پیدا کرتی ہے۔ اسی کی بدولت زندگی نورانی بنتی ہے اور اسی کی بدولت زندگی میں حرارت پیدا ہوتی ہے۔ مراد یہ ہے کہ عشق نہ ہوتا تو زندگی کے ساز سے کوئی نغمہ نہ نکل سکتا یعنی زندگی ہی موجود نہ ہوتی۔ نیز عشق ہی کی بدولت زندگی میں شان جلال اور شان جمال پائی جاتی ہے ۔
Stanza 3
اے حرم قرطبہ! عشق سے تیرا وجود
عشق سراپا دوام، جس میں نہیں رفت و بود
اے قرطبہ کی مسجد! تو بھی عشقِ حق کی بدولت وجود میں آئی، عشق سر سے پاؤں تک ہمشہ کے لیے ہے۔ اس کے لیے فنا نہیں۔
رنگ ہو یا خشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود
رنگ ہو یا اینٹ، ساز ہو یا لفظ و آواز، غرض کوئی فن ہو، اس کا کمال جگر کے خون سے نمایاں ہوتا ہے۔
پہلے مصرع میں رنگ سے بظاہر مراد مصوری ہے، خشت و سنگ سے مراد فن تعمیر، چنگ سے مراد موسیقی، حرف و صوت سے شاعری، انشا اور خطابت۔ فرماتے ہیں کہ ان فنون میں اگر اخلاص و عشقِ حق کی نمائش ہو تو یقیناً یہ بڑے بلند پایہ فنون بن جاتے ہیں اور قوموں کی تربیت میں بہت مؤثر ثابت ہوتے ہیں، لیکن اگر اخلاص و عشقِ موجود نہ ہوں تو یہ روح جسم ہوں گے اور چشم و گوش کی عارضی تواضع کے سوا کوئی وظیفہ انجام نہ دے سکیں گے۔ مسجد قرطبہ کو وہ خون جگر ہی کی بدولت معجزہ فن قرار دیتے ہیں۔
قطرہ خون جگر، سل کو بناتا ہے دل
خون جگر سے صدا سوز و سرور و سرود
خون جگر کا قطرہ پتھر کی سل کو دل کی طرح احساس اور تڑپ کا پیکر بنا دیتا ہے۔ مراد ہے کہ صاحب فن کا جذبہ عشق ہی بے جان اشیاء میں زندگی کی شان پیدا کردیتا ہے۔
جگر کے خون ہی سے آواز میں سوز، کیف اور نغمہ پیدا ہوتا ہے، یعنی آواز خواہ وہ شاعر کی ہو۔ خواہ داعی کی ہو، خواہ کسی اور کی، وہ اسی وقت دلوں میں حرارت پیدا کرتی ہے اور روحوں کو عمل کے لیے بے خود بنادیتی ہے، جب اس میں عشق کا جذبہ موجود ہو۔
تیری فضا دل فروز، میری نوا سینہ سوز
تجھ سے دلوں کا حضور، مجھ سے دلوں کشود
اقبال مسجد سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ تیری فضا دلوں کے لیے روشنی کا سامان پیدا کرتی ہے، جبکہ میری نوا سے سینوں میں حرارت اور تڑپ پیدا ہوتی ہے۔ تو دلوں کو حضور حق میں پہنچاتی ہے، میں دلوں کی پیچیدہ گتھیاں سلجھاتا ہوں اور ان میں انشراح پیدا کرتا ہوں یعنی اگر تیرا نظارہ دیکھنے والے کے دل میں اللّٰہ تعالٰی کی ہستی کا یقین پیدا کرتا ہے اور ان میں عبادت کا صحیح ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے تو میرے کلام کے مطالعہ سے قلب میں محبت الٰہی کا رنگ پیدا ہوجاتا ہے اور عشق الہٰی کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
عرشِ معلیٰ سے کم سینہ آدم نہیں
گرچہ کف خاک کی حد ہے سپہر کبود
انسان اگرچہ بظاہر بہت بے حقیقت معلوم ہوتا ہے، لیکن اس کا سینہ ایمان کے نور سے منور ہو جائے تو وہ عرش معلیٰ سے کم نہیں رہتا۔ عرش معلیٰ کی خصوصیت اس کے سوا کیا ہے کہ وہ ذات حق کی تجلیات کا مرکز ہے۔ اگر انہیں تجلیات کا نزول نور ایمان کی وجہ سے انسان کے سینہ پر ہو تو اسے کیوں عرش معلیٰ سے کم سمجھا جائے! مانا کے انسان اپنے جسم خاکی کے باعث نیلے آسمان سے آگے نہیں جاسکتا، لیکن اس سے اس کی معنوی برتری میں کوئی فرق نہیں آتا۔
پیکر نوری کو ہے سجدہ میسر تو کیا
اس کو میسر نہیں سوز و گداز سجود
عشقِ حق اور نور ایمان ہی کی بدولت انسان کا درجہ فرشتوں اور قدسیوں سے بھی بلند ہو گیا۔ وہ اگرچہ ذات حق کو سجدہ کرتے ہیں، اس کی تسبیح و تقدیس میں لگے رہتے ہیں۔
لیکن انہیں سوز و گداز کا وہ مقام کہاں حاصل ہے؟ عشق میں تکلیفیں اٹھانے، مصیبتیں برداشت کرنے اور جلتے رہنے کی وہ سعادت کب نصیب ہوئی جو انسان کو حاصل ہے۔
کافرِ ہندی ہوں میں، دیکھ مرا ذوق و شوق
دل میں صلوت و درود، لب پہ صلوت و درود
میں ہندی کافر ہوں مجھے ایمان کا وہ مقام حاصل نہیں جو اہل حق کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن اے مسجد قرطبہ! میرے ذوق وشوق کی کیفیت دیکھ، کہ تجھے دیکھتے ہی میرے دل میں عشق الہٰی کی آگ اور بھی تیز ہوگئی اور میری زبان پر بےساختہ درود و سلام جاری ہو گیا۔
شوق مری لے میں ہے، شوق مری نے میں ہے
نغمہء اللّٰہ ہو میرے رگ و پے میں ہے
میرا لب و لہجہ بھی شوق سے لبریز ہے۔ میری بانسری بھی شوق کے سوا کچھ نہیں اور میرے جسم کا ریشہ ریشہ اللّٰہ ہو کا نغمہ گارہا ہے۔
Stanza 4
تیرا جلال و جمال، مرد خدا کی دلیل
وہ بھی جلیل و جمیل، تو بھی جلیل و جمیل
اے مسجد قرطبہ! تیری شان و شوکت اور حسن و جمال کو دیکھ کر مرد خدا کی یاد تازہ ہوتی ہے۔ وہ بھی اپنے اوصاف میں صاحب شان و شوکت اور صاحب حسن و جمال ہوتا، جس طرح تو ہے۔
تیری بنا پائدار، تیرے ستوں بے شمار
شام کے صحرا میں ہو جیسے ہجوم نخیل
تیری عمارت نہایت پختہ اور مظبوط ہے۔ جس پر کم و بیش بارہ سو سال گزر چکے ہیں اور ابھی تک اپنی اصل حالت پر قائم ہے۔ تیرے ستون گنے نہیں جاسکتے، انہیں دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ملک شام کے صحرا میں کھجوروں کا ایک جھنڈ ہو۔
مسجدِ قرطبہ کے تمام ستون ایک ہزار چار سو سترہ تھے۔ انسان اتنے ستونوں کے درمیان کھڑا ہو جائے تو حیران رہ جاتا ہے اور ان کی گنتی نہیں کرسکتا۔ پھر ان ستونوں کے لیے تشبیہ نہایت پاکیزہ پیدا کی۔ اقبال نے شام کا ذکر اس لیے بھی کیا کیونکہ وہاں کھجوروں کے درخت بہت زیادہ ہوتے ہیں اور ان کی بناوٹ اور خدو خال سیدھے پن میں ستونوں سے مشابہ ہوتی ہے۔ اس لیے بھی کیا کہ مسجد کا بانی اور اس کی آل اولاد، شام سے نکل کر اندلس پہنچے تھے اور وہاں انہوں نے عالیشان سلطنت قائم کی تھی۔ گویا اقبال یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مسجد کی تعمیر کے دوران میں اپنے وطن کا سب سے دلکش نظارہ ( یعنی کھجوروں کے درختوں کا ہجوم) ان لوگوں کے سامنے رہا اور وہی نظارہ انہوں نے مسجد کی تعمیر میں پیدا کر دیا ۔
تیرے در و بام پر وادی ایمن کا نور
تیرا منار بلند جلوہ گہ جبرئیل
تیرے دروازوں اور چھت پر وادی سینا کا نور جگمگا رہا ہے۔ تیرا وہ مینار جس پر آذان کہی جاتی تھی، ایک سو دس فٹ بلند ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام اپنا جلوہ دکھا رہے ہیں۔
مٹ نہیں سکتا کبھی مرد مسلماں کہ ہے
اس کی اذانوں سے فاش سر کلیم و خلیل
مسجد کی پائیداری کا ذکر کرتے ہوئے اقبال کے دل میں ملت اسلامیہ کی پائیداری تازہ ہو گئی۔ فرماتے ہیں کہ مسلمان اگرچہ ہسپانیہ سے مٹ گئے لیکن دنیا سے ہرگز نہیں مٹ سکتے،کیونکہ ان کی اذانیں تو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں کے راز بے نقاب کر رہی ہیں۔ یعنی اس دین حق کو دنیا میں پھیلانا مسلمانوں کا وظیفہ ہے جو حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام یا دوسرے پیغمبر اس دنیا میں لائے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے دین اسلام کو جو نسبت ہے، وہ کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
اس کی زمیں بے حدود، اس کا افق بے ثغور
اس کے سمندر کی موج، دجلہ و دنیوب و نیل
اسلامی وطن کی کوئی حد نہیں۔ روئے زمین کا ہر ٹکڑا اور ہر گوشہ مسلمان کا وطن ہے۔ اس کا افق حد بندی سے بے نیاز ہے ۔ دریائے دجلہ، دریائے دنیوب اور دریائے نیل اس کے سمندر کی لہریں ہیں۔ ( اس مصرع میں سلطنت عثمانیہ کی وسعت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ سلطان سلیمان اعظم کے زمانہ میں یہ تینوں دریا سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے)۔
دجلہ: عراق کا مشہور دریا جس کے کنارے بغداد واقع ہے.
دنیوب: وسطی یورپ کا مشہور دریا “ڈینیوب” جو جرمنی سے نکلتا ہے۔ آسٹریا،ہنگری اور رومانیہ میں سے ہوتا ہوا بحیرہ اسود میں گرتا ہے۔ یورپ کے بعض مشہور شہر مثلاً ویانا، بوڈا پسٹ اسی کے کنارے واقع ہیں۔
نیل: دریائے نیل دنیا کا سب سے طویل دریا ہے جو براعظم افریقہ میں واقع ہے.
مراد یہ ہے کہ مسلمان عرب سے نکلے تو ساری دنیا پر چھا گئے۔کوئی گوشہ ایسا نہ رہا جہاں ان کی تعلیمات حق کے اثرات کسی نہ کسی شکل میں نہ پہنچے ہوں۔ دجلہ ، دنیوب اور نیل کا ذکر تو سرسری طور پر کردیا۔ ایشیا، یورپ اور افریقہ کا کونسا قابل ذکر دریا ہے جس نے اسلامی سمندر میں لہر کی حیثیت اختیار نہ کی ہو۔ بے شک آج مسلمانوں کی وہ شان جلال باقی نہیں باقی نہیں لیکن کیوں سمجھ لیا جائے کہ وہ اپنے دین حق کی تعلیم کا سہارا لے کر لے کر پھر آپنے پہلے درجہ پر نہیں پہنچ سکتے؟
اس کے زمانے عجیب، اس کے فسانے غریب
عہدِ کہن کو دیا اس نے پیام رحیل
مسلمان قوم اس دنیا میں نہایت حیرت انگیز کارنامے انجام دے چکی ہے ۔ اور ان کی سرگزشت کے دور سب کے لیے تعجب خیز ہیں۔ ان کے جوش ہمت اور عزم و جواں مردی کی داستانیں اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی دوسری قوم ان داستانوں کی نظیر پیش نہیں کرسکتی۔ مسلمان ہی ہیں جنہوں نے پرانے زمانے کو کوچ کا پیغام دیا اور اس عہد کی بنیاد رکھی جسے تہذیب ،شائستگی، علم ،تحقیق اور کمال فنون کا خاص عہد کہا جاتا ہے۔
ساقی اربابِ ذوق، فارس میدان شوق
بادہ ہے اس کا رحیق، تیغ ہے اس کی اصیل
جن اصحاب میں روحانی ذوق تھا ان کے لئے دل پسند شراب مسلمان ہی نے مہیا کی۔ وہی تھا جس نے عشق کے میدان میں شہسواری کے جوہر دکھائے۔ اس کی شراب خالص اور مصفا ہے۔ اس کی تیغ اصیل ہے جس کی کاٹ کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
انسان فطرت و طبیعت کے اعتبار سے مختلف قوم کے ہوتے ہیں۔ بعض میں روحانی ذوق بڑھا ہوا ہوتا ہے۔ بعض جہاد بالسیف کی شیدائی ہوتے ہیں۔ بعض اپنی زندگیاں علم و فن کی خدمت میں گزار دیتے ہیں۔ ان کے لیے بہترین سامان اسلامی تعلیمات نے مہیا کیے ہیں۔
اگرچہ مسلمان اپنے عہد عروج میں ساری دنیا پر اپنی سطوت کا سکہ جما چکے۔ لیکن وہ اس گئی گزری حالت میں بھی محبت اور شجاعت میں کسی قوم سے کم نہیں ہیں۔ آج بھی دنیا کو درس وفا دے سکتے ہیں۔ آج بھی اللہ تعالی کے نام پر سر کٹانے کا جذبہ ان میں موجود ہے، آج بھی بھی وہ عشقِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی دولت کے مالک ہیں۔ ان کی شراب محبت میں آج بھی وہی تیزی ہے اور ان کی تلوار آج بھی جوہر دار ہے اور اعدائے دین کی سرکوبی کر سکتی ہے۔
مرد سپاہی ہے وہ اس کی زرہ لاالہ
سایہء شمشیر میں اس کی پنہ لاالہ
مسلم قوم سپاہی ہے ۔ اس کی ذرہ کلمہ توحید کے سوا کچھ نہیں، یعنی وہ اس کلمہ کو لے کر اٹھتا ہے اور یہی اس کے جہاد کا پورا سروسامان ہے ۔ تلوار کے سایہ میں بھی اس کی پناہ کا الہ الااللہ کے سوا کوئی نہیں یعنی وہ توحید ہی کی دعوت دیتا ہے اور توحید ہی کو اپنی زندگی کا مقصد و نصب العین سمجھتا ہے۔ اسی کے لیے جیتا اور اسی کی خاطر جان دیتا ہے۔ ایسی قوم کیوں کرمٹ سکتی ہے۔
اقبال نے جو کچھ کہا ہے اسے شاعرانہ خیال نہیں سمجھنا چاہیے۔ ایک حدیث قدسی میں یہی مضمون بیان ہوا ہے۔ اس کا مفاد یہ ہے کہ مسلمانوں پر ایسا دور بھی آ سکتا ہے، جب دشمنوں کا غلبہ بہت بڑھ جائے۔ لیکن یہ صورت کبھی پیدا نہ ہو گی کہ ان کی ہستی ہی باقی نہ رہے یا نشو نما کا وہ جوہر ختم ہو جائے جو قوموں کی زندگی کا حقیقی سرچشمہ ہے۔ مسلمانعں ہر مصیبتیں اس وقت آتی ہیں جب وہ خدا کے احکام کی پیروی چھوڑ دیتے ہیں۔ پیروی کے ساتھ ہی عزت و سربلندی کی نئی روح پیدا ہو جاتی ہے۔ اسلامی تاریخ میں ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ تھوڑی دیر کے لئے مغلوب ہوئے، پھر جوش عمل اور ہمت و عزیمت کی بدولت زندگی کے نئے سر و سامان سے آراستہ ہوں گئے۔
Stanza 5
تجھ سے ہوا آشکار بندہ مومن کا راز
اس کے دنوں کی تپش، اس کی شبوں کا گداز
اے مسجد قرطبہ! تجھے دیکھ کر بندہ مومن کی حقیقی شان آشکار ہوتی ہے. اس شان کی خصوصیتیں کیا ہیں؟ یہ کہ مومن دن کے اوقات میں عشق حقیقی کے جذبے سے سرشار ہوکر انتہائ سرگرمی اور جانفشانی سے مصروف کار رہتا ہے۔ خدا کے احکام کی تعمیل کرتا اور کراتا ہے۔اس کے بندوں کے لئے راحت و آسائش کا سامان بہم پہنچاتا ہے۔ انہیں باطل قوتوں کی زرعی ثانی سے محفوظ رکھتا ہے۔ غرض اس کا سارا وقت ایسے ہی کاموں میں گزر جاتا ہے ۔رات آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے ۔اس کے سامنے روتا ہے دعائیں کرتا ہے اسی سے مدد اور نصرت کے لئے التجا کرتا ہے۔ یوں اس کے رات اور دن گزرتے ہیں۔
اس کا مقام بلند، اسکا خیال عظیم
اس کا سرور اس کا شوق، اس کا نیاز اس کا ناز
اے مسجد قرطبہ! تو اس کی محنت، مشقت سرگرمی اور جانفشانی کا ایک زندہ کارنامہ ہے۔ تو اس لیے تعمیر ہوئی کے مومن رات کے اوقات میں تیرے اندر بیٹھ کر خدا کی بارگاہ میں دعائیں کرے ۔ تیری عمارت کی رفعت اس کے مقام بلند ہونے کا کھلا ثبوت ہے ۔ تیری وسعت سے اس کے بڑے بڑے ارادوں کا پتہ چلتا ہے۔یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کے خیالات کتنے وسیع ہیں۔ پھر اس نے تجھے انتہائی ذوق و شوق سے بنایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کے اس کا ذوق و شوق کتنا پاکیزہ تھا۔تو اس غرض سے بنی کہ مومن تجھ میں خدا کے سامنے سجدہ نیاز کرتا رہے۔ اس نیازمندی میں بھی ناز کی ایک عجب شان آشکارا ہے۔ یہ تیرے چپے چپے کے حسن سے ٹپک رہی ہے۔
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز
بندہ مومن کا ہاتھ اللہ تعالی کا ہاتھ ہوتا ہے۔وہ جو کچھ کرتا ہے ،خدا کے لئے کرتا ہے۔ اس کا کوئی عمل ذاتی غرض سے آلودہ نہیں ہوتا۔ لہذا اللّٰہ اپنی رحمت سے اس کے ہاتھ میں اپنے ہاتھ کی شان پیدا کر دیتا ہے۔ اس کا ہاتھ خدا کے ہاتھ کی طرح سب پر غالب رہتا ہے ۔وہ سب کو صحیح کاموں کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔کسی کے کام میں رکاوٹ پیدا ہو جائے تو اسے دور کر دیتا ہے۔ اور کسی کا سلسلہ کا بگڑ جائے تو اسے سنوار دیتا ہے۔ یعنی مومن کی برکت سے لوگوں کی سرگرمیاں صحیح مسلک پر بگڑی بنتی ہیں۔ باطل قوتوں کے لیے ابھرنے کا کوئی موقع نہیں رہتا۔
جب جب انسان اپنا وجود رضائے الٰہی کے لیے وقف کر دے اور سچا مومن بن جائے، تو یقینا اس کا ہر کام خدائی کام بن جاتا ہے۔ اس لئے کہ اس سے خدا کی رضا کے سوا کچھ مقصود نہیں ہوتا اور عین خدا ہی کے حکم کے مطابق ہوتا ہے۔
خاکی و نوری نہاد، بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
بندہ مومن اگرچہ جسم کے اعتبار سے خاکی ہوتا ہے۔ لیکن فطرت و طبیعت کے لحاظ سے اس کے نوری ہونے میں کسی کو کلام نہیں ہو سکتا۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت اس کے اندر اپنے آقا و مولا علی کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس کا بے نیاز دل دنیا اور عقبی کی کسی چیز پر نہیں ٹھہرتا۔ اس کا مقصود ذات باری تعالی کی خوشنودی کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس کی امیدیں قلیل، اس کے مقاصد جلیل
اس کی ادا دل فریب، اس کی نگہ دل نواز
اس کی امیدیں بہت تھوڑی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کسی کام کے لئے دنیا والوں سے اجر اور معاوضے کا خواہاں نہیں ہوتا۔ اس کی غرض سے صرف یہ ہوتی ہے کہ اس دنیا میں خدا کی رضا پوری ہو جائے۔
کہنے کو یہ معمولی مقصد ہے لیکن حقیقت پر نظر رکھی جائے تو یہ مقصد نہایت عظیم الشان ہے۔ اس میں وہ تمام مقاصد آجاتے ہیں جنھیں اس دنیا کے بڑے بڑے انسانوں نے اپنا نصب العین بنایا۔ مثلاً خلق خدا کی بہتری اور بہبود ان کا امن، عالمگیر اخوت و مساوات، تمام انسانوں کو خدا کے سچے بندے بنانا اور سب کو اس کی چوکھٹ پر جھکانا۔ دنیا میں اس سے بڑے مقصد کیا ہو سکتے ہیں جو مومن کا نصب العین بنیں؟ اس کی پوری زندگی دیکھ کر انسانوں کے دلوں میں محبت اور احترام کے جزبات پیدا ہوتے ہیں۔وہ کسی پر عتاب کی نگاہ نہیں ڈالتا۔ ہر ایک کی دلنوازی کرتا ہے۔
نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو
رزم ہو یا بزم ہو، پاک دل و پاک باز
وہ بات چیت کرتا ہے تو بہت نرمی سے۔۔ تلاش حق میں بہت سرگرمی دکھاتا ہے۔ میدان جنگ کا معاملہ ہو یا دوستوں کی محفل جم جائے، دونوں جگہ پاک سیرت اور پاکبازی کا پیکر ہوتا ہے۔یعنی وہ میدان جنگ یا مجلس شوریٰ میں ابھی خدا کی مقرر کی ہوئی حدوں سے تجاوز نہیں کرتا۔یہی پاک دلی اور پاک باز ی کا پہلا اور آخری معیار ہے کہ انسان زندگی کے ہر شعبے اور ہر حصے میں خدا کے حکام کے مطابق چلے اور ان سے بال برابر بھی ادھر ادھر نہ ہو۔ وہ اپنی ہر حرکت میں صرف خدا کی رضا پیش نظر رکھے۔
نقطہ پرکارِ حق، مرد خدا کا یقین
اور یہ عالم تمام وہم و طلسم و مجاز
دنیا میں مرد مومن ہی کا ایمان و یقین پرکار حق کا نقطہ ہے۔ اسی کی وجہ سے اس دنیا میں خدائی احکام جاری ہوتے ہیں۔ اسی کی وجہ سے خدا کی رضا لوگوں کا نصب العین بنتی ہے۔ لہذا وہی اس دنیا میں حقیقی چیز( یعنی نقطہ پرکارِ حق) ہے ۔ باقی جو کچھ ہے وہ سراسر وہم،دھوکا اور مجاز ہے۔یعنی مرد مومن کے ایمان و یقین کے سوا اس دنیا میں کسی شے کو پائیداری اور استواری نصیب نہیں۔
عقل کی منزل ہے وہ، عشق کا حاصل ہے وہ
حلقہ آفاق میں گرمی محفل ہے وہ
مرد مومن ہیں عقل سلیم کا سرچشمہ ہے۔ اس کو عشق حق کا حاصل کہا جا سکتا ہے۔ کائنات کی محفل میں جو رونق اور چہل پہل نظر آتی ہے،وہ اسی کے دم سے ہے۔
Stanza 6
کعبہ اربابِ فن! سطوت دین مبیں
تجھ سے حرم مرتبت اندلسیوں کی زمیں
اے مسجد قرطبہ!تو فنون لطیفہ کے ماہروں کی نظر میں ایسی ہی لائق احترام ہے جیسے کعبہ مسلمانوں کی نظر میں۔ تجھ کو دیکھ کر اسلام کی عظمت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔اور تیری بدولت ہسپانیہ کی سرزمین بھی مکہ مکرمہ کی طرح محترم اور معزز ہوگئی ہے۔
ہے تہ گردوں اگر حسن میں تیری نظیر
قلبِ مسلماں میں ہے، اور نہیں ہے کہیں
اس آسمان کے نیچے تیرے حسن و خوبی کی اگر کوئی مثال ہے، تو وہ روئے زمین پر موجود نہیں، البتہ مسلمانوں کے قلب میں مل سکتی ہے، یعنی مسلمان ہی پھر ایسی خوبصورت اور عالیشان عبادت گاہ بنا سکتے ہیں اور کوئی نہیں بنا سکتا۔
پہلی بات یہ کہ مومن کا دل حسن و جمال کا مرکز اور منبع ہوتا ہے، دوسری بات یہ کہ دنیا کی کائی مسجد حسن و جمال کے اعتبار سے مسجد قرطبہ کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔
اس بے نظیر مسجد کی تعمیر عبدالرحمن اول نے شروع کی اور اس کے جانشین ہشام نے اسے پایا تکمیل تک پہنچایا۔ پھر اس کی جانشین عبدالرحمان ثانی نے اس میں توسیع کی اور اس کے جانشین سلطان اعظم عبدالرحمان ثالث نے سرخ دینار اس کی آرائش و زیبائش پر صرف کر کے اسے مساجد عالم کی ملکہ بنا دیا۔اس کی آرائش و زیبائش کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ اس کا منبر بھی خالص ہاتھی دانت کا تھا اور اس میں بہت سے جواہرات لگے تھے۔ اس پر 35 ہزار دینار صرف ہوئے تھے یعنی موجودہ زمانہ میں اس کی قیمت 35 لاکھ دینار کے قریب ہوگی۔ اس مسجد میں 1417، خالص سنگ مرمر کے ستون ہے جن کے نقش و نگار کمال فن کی دلیل ہیں۔ شام کے وقت اس میں دس ہزار جھاڑ فانوس روشن ہوتے تھے۔وسط میں تین بڑے فانوس خالص چاندی کے تھے، باقی سب پیتل کے تھے۔ ان میں سے ہر ایک میں 1480 پیالے روشن ہوتے تھے جن میں شبانہ 36سیر تیل جلتا تھا۔تین سو فزاش اس کی صفائی پر معین تھے۔
آہ وہ مردان حق! وہ عربی شہسوار
حامل خلق عظیم صاحب صدق ویقیں
مسجد کا ذکر کرتے کرتے اقبال کا ذہن قدرتی طور پر اس قوم کے کارناموں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جس نے یہ عدیم المثام مسجد بنائی تھی، چنانچہ اس بند کے تیسرے شعر سے انہوں نے عربوں کی عظمت رفتہ کی داستان بیان کی ہے۔ چونکہ اقبال کو یہ معلوم تھا کہ وہ چار یا چھ شعروں میں ہسپانیہ کی تاریخ نظم نہیں کر سکتے اس لیے انہوں نے رنگ اختصار کو مدنظر رکھ کر اپنے اشعار میں ایسے الفاظ استعمال کیے ہیں جن میں مسلمانان اندلس کی چھ سو سالہ تاریخ مضمر ہے۔ ان چھ شعروں کے پڑھنے سے دل میں وہ اثر پیدا ہو سکتا ہے جو پوری تاریخ پڑھنے سے بھی شاید نہ ہو۔
اقبال نے اس شعر کو لفظ آہ سے شروع کیا ہے۔ یہ لفظ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ مسلمانان اندلس کی تاریخ ایک درد ناک المیہ ہے یعنی ان کی پوری تاریخ اس ایک لفظ میں پوشیدہ ہے۔
مردان حق کی ترکیب یہ بتاتی کہ جن لوگوں نے ہسپانیہ کو فتح کیا تھا، یعنی طارق اور ان کے ہمراہی، ہوہ سچے مسلمان تھے۔ ان کی زندگی کا مقصد تھا کہ حق کا بول بالا ہو۔
عربی شہسوار کی ترکیب یہ بتاتی ہے کہ وہ عربی النسل تھے اور شہسواری میں ممتاز تھے بلکہ یہ ان کی قومی خصوصیت تھی ۔ علاوہ بریں اس لفظ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ ہسپانیہ میں تجارت کرنے کے بہانے سے داخل نہیں ہوئے تھے بلکہ انہوں نے اس ملک پر فوج کشی کی تھی۔
جن کی حکومت سے ہے فاش یہ رمز غریب
سلطنت اہل دل فقر ہے، شاہی نہیں
وہ جن کی حکومت نے یہ عجیب وغریب نکتہ دنیا پر واضح کیا کہ دل والوں کی سلطنت فقیری ہوتی ہے، بادشاہی نہیں۔۔۔ یعنی وہ اس لیے نہیں آتے کہ بڑے بڑے محل بنائیں اور اردگرد عظمت و برتری کے حیرت انگیز سامان جمع کرلیں، بلکہ وہ فقر و درویشی کا تحفہ لے کر آتے ہیں، جو کم سے کم میں گزارہ کرتے ہیں اور ہر چیز خلق خدا کی بہتری، بہبود اور راحت و آسائش کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ یہی وہ سلطنت ہے جس کا پیغام اسلام دنیا میں لایا۔ یہی وہ حکمرانی ہے، جس کا بہترین نمونہ خلافتِ راشدہ نے پیش کیا۔ جو عرب اندلس پہنچے تھے، وہ بھی یہی نمونہ لے کر گئے تھے اور اسی کی وجہ سے خود اندلسی مسیحیوں نے اپنے بادشاہوں کو چھوڑ کر مسلمان عربوں کا ساتھ دیا تھا۔
جن کی نگاہوں نے کی تربیت شرق و غرب
ظلمت یورپ میں تھی جن کی خرد راہ بیں
ان لوگوں نے یعنی عربوں نے مشرق اور مغرب کو اسلام کے نور سے منور کردیا اور انہیں کی بدولت یورپ میں( جو ان کی آمد سے قبل جہالت اور اوہام باطلہ کی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا) میں علم و فن کی روشنی پھیل گئی۔ چنانچہ یورپ کی تاریخ اس حقیقت پر شاہد ہے کہ اس خطہ میں علوم و فنون کی اشاعت عربوں کی وساطت سے ہوئی۔ قرطبہ اور غرناطہ کے مدرسوں میں انگلستان، فرانس، جرمنی اور اطالیہ کے طلبہ مختلف علوم و فنون حاصل کرتے تھے اور ٹامس ایکوئیناس، جان اسکوٹس، راجر بیکن وغیرہ۔۔ یہ سب فلسفی مشہور اندلسی حکیم ابنِ رشد ہی کے خوشہ چین ہیں، بلکہ فرانس اور اطالیہ میں تو فلسفہ ابنِ رشد کے مرکز قائم تھے جہاں سے اس نامور حکیم کے فلسفہ کی باقاعدہ اشاعت ہوتی تھی۔
جن کے لہو کی طفیل آج بھی ہیں اندلسی
خوش دل و گرم اختلاط، سادہ و روشن جبیں
خلق عظیم کے پیکر وہی تھے جن کا لہو آج تک اندلسیوں کی رگوں میں دوڑ رہا ہے اور یورپ کی دوسری قوموں کے مقابلے میں اندلس کے باشندے خوش دل، مہمان نواز، میل جول میں پرتپاک، سادہ مزاج اور روشن پیشانیوں والے یعنی خوبصورت ہیں۔
آج بھی اس دیس میں عام ہے چشمِ غزال
اور نگاہوں کے تیر آج بھی ہیں دل نشیں
اندلس میں آج بھی ہرن جیسی آنکھیں ہر جگہ دیکھی جا سکتی ہیں اور حسینوں کی نگاہوں کے تیر آج بھی دل میں ترازو ہوتے ہیں۔ مراد یہ ہے کہ حسن کی یہ علامتیں عربی خون کی آمیزش کا نتیجہ ہیں۔
بوئے یمن آج بھی اس کی ہواؤں میں ہے
رنگ حجاز آج بھی اس کی نواؤں میں ہے
آج بھی اندلس کی ہوا میں یمن کی خوشبو اور وہاں کے باشندوں کی گفتگو میں حجازی لب و لہجہ کا اثر موجود ہے۔
بوئے یمن سے اشارہ اس مشہور مگر غیر مستند حدیث کی طرف بھی ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو یمن کی جانب سے ٹھنڈی ہوا آئی۔ بظاہر اس سے مراد یہ ہے کہ عرب ابتدا میں اندلس جاکر آباد ہوئے، ان میں بڑا حصہ یمن کے عربوں کا تھا اور ان کی نسل اب بھی وہاں موجود ہے۔ نیز اندلس کی موسیقی دوسرے یورپی ملکوں کی موسیقی کے مقابلہ میں حجازی موسیقی سے مشابہ ہے۔
Stanza 7
دیدہ انجم میں ہے تیری زمیں، آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
اے مسجد قرطبہ! ستاروں کی نظر میں تیری زمین کو آسمان کا رتبہ حاصل ہے، یعنی وہ بہت بلند مرتبہ ہے۔ آہ! کہ صدیاں گزر گئیں اور تیری فضا میں اذان کی آواز نہیں سنی گئی۔ یعنی کسی نے تیرے صحن یا ماذنے سے اذان نہیں کہی۔
کون سی وادی میں ہے، کون سی منزل میں ہے
عشقِ بلا خیز کا قافلہء سخت جاں
کچھ معلوم نہیں کہ ہنگامے پیدا کرنے اور ہلچل ڈالنے والے عشقِ حق ک سخت جان قافلہ کون سی وادی اور کون سی منزل میں مقیم ہے؟ ہو کب یہاں پہنچے گا؟ اور کب تیری فضا میں اللّٰہ اکبر کی صدائیں پھر اسی طرح گونجنے لگیں گی، جس طرح اسلامی دور میں ساڑھے سات سو سال تک گونجتی رہیں۔
دیکھ چکا المنی، شورش اصلاح دیں
جس نے نہ چھوڑے کہیں نقش کہن کے نشاں
اس کے بعد کے چار شعروں میں اقبال نے کمال بلاغت کے ساتھ یورپ کے بڑے بڑے انقلابات کا ذکر کیا ہے۔ جو ان کے قیاس کے مؤید ہیں یعنی جب جرمنی،فرانس اور اطالیہ میں انقلاب رونما ہو چکا ہے تو اگر ہسپانیہ میں بھی عنقریب کوئی انقلاب رونما ہو جائے تو بعید از قیاس نہیں۔اقبال کہتے ہیں کہ زوال غرناطہ کے بعد یورپ میں بہت سے انقلابات رونما ہو چکے ہیں۔ مثلاً سولہویں صدی میں جرمنی میں لوتھر نے اصلاح کلیسا روم کے نام سے ایک تحریک شروع کی۔ جس نے یورپ میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا کردیا۔ جس کی بدولت نصف سے زائد مسیحی دنیا پاپائے روم کے مذہبی اقتدار سے آزاد ہو گئی۔
اصلاح دیں:مراد ہے ریفارمیشن، یعنی مذہبی اصلاح کی وہ تحریک جو مارٹن لوتھر باشندہ جرمنی نے پوپ کے خلاف اٹھائی تھی اور جس کی بنا پر عیسائیت دو بڑے ٹکڑوں میں بٹ گئی۔ پوپ کو ماننے والے “کیتھولک” کہلاتے رہے جبکہ لوتھر کو ماننے والوں کا نام “پروٹسٹنٹ”پڑ گیا۔
صورتحال یہ ہوئی کہ رومن کیتھولک کلیسا کی تعلیمات عجیبہ میں سے یہ دو باتیں بھی تھی کہ: پاپائے روم عیسائیوں کے گناہ معاف کرسکتا ہے چنانچہ معافی ناموں کی فروخت کا باقاعدہ محکمہ قائم تھا اور پوپ کو اس تجارت سے کافی آمدنی ہوتی تھی۔
1517میں مارٹن لوتھر نامی ایک پادری (جو جرمنی کی وٹن برگ یونیورسٹی میں پروفیسر تھا) نے ان دونوں عقیدوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی تھی, اور 31 اکتوبر کو کافی غور وفکر کر کے بعد شہر کے سب سے بڑے گرجے کے دروازے پر پوپ اور کلیسا کے ان دونوں عقائد کی تردید جلی قلم سے لکھ کر چسپاں کر دی۔ گویا یہ کلیسا کے خلاف اعلان جنگ تھا جو ایک نحیف پادری کی طرف سے کیا گیا تھا، چونکہ لوتھر نے کلیسائی طریق کار کے خلاف احتجاج کیا تھا اس لئے اس کے ہم خیال پروٹسٹنٹ مشہور ہوگئے۔ 1560 میں پوپ لیو وہم نے لوتھر کیس کلیسا سے خارج کر دیا لیکن لوتھر کی تحریک نے رفتہ رفتہ نصف عیسائی دنیا کو پوپ کی غلامی سے نجات دی۔
رومن کیتھولک دنیا میں کوئی شخص، کوئی مذہبی یا فلسفیانہ یا علمی کتاب شائع نہیں کرسکتا۔جب تک کلیسا اس کے مضامین کی صحت کی تصدیق نہ کردے۔ اس کام کے لیے پوپ کی طرف سے احتساب کتب کا ایک باقاعدہ محکمہ قائم ہے۔ ملک ملک میں انقلاب پیدا ہوئے۔ جرمنی سے اصلاح دین کی تحریک اٹھی جس نے پرانے زمانے کے تمام نقوش مٹا کر رکھ دیے۔
حرفِ غلط بن گئی عصمت پیر کنشت
اور ہوئی فکر کی کشتی نازک رواں
نیز اصلاح کا ایک زبردست نتیجہ یہ برآمد ہو کہ پوپ کی عصمت کا عقیدہ باطل ہوگیا یعنی جو ممالک پاپائے روم کے اقتدار سے آزاد ہوگئے ہیں وہاں کے عیسائی اس کو معصوم نہیں سمجھتے۔
واضح ہو کہ کلیسائے روم یعنی رومن کیتھولک چرچ کا یہ عقیدہ ہے کہ پوپ معصوم عین الخطا ہے، اس سے غلطی یا گناہ سرزد نہیں ہوسکتا۔ لوتھر نے اس عقیدہ کا ابطال کیا جس کی بدولت پروٹسٹنٹ کلیسا کے پادریوں کو بائبل میں غور وفکر کرنے اور اس کی تفسیر کرنے کی آزادی نصیب ہوئی۔
پوپ کی جس معصومی پر عیسائیت نے ایک مذہبی نظام تیار کیا تھا، وہ معصومی حرفِ غلط کی طرح محو ہو کر رہ گئی۔ اس عہد میں کسی کو سوچنے کی اجازت نہ تھی۔ کوئی شخص بائیبل کا ترجمہ نہ کر سکتا تھا اور مذہب کے متعلق کوئی رائے نہ دے سکتا تھا۔ سب کی گردنیں پوپ اور اس کے مقرر کیے ہوئے کارکنوں کے سامنے جھکی رہتی تھی۔ وہ جو کچھ کہہ دیتے تھے، اسی کو نجات کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، لیکن جب لوتھر تحریک نے پوپ کی معصومیت ختم کی تو لوگ دین پر غور وفکر کرنے لگے۔ حقیقت حال ان پر آشکارا ہوئی۔ اسی وقت سے پرانا مذہبی ڈھانچہ برباد ہوگیا۔ اسی وقت سے آزادی فکر کا وہ دور شروع ہوا جس نے آگے چل کر یورپ کو لادینی کی راہ پر ڈال دیا۔
اقبال کا کمال یہ ہے کہ فکر کی کشتی کو نازک بتایا۔ یقیناً وہ اتنی نازک ہوتی ہے کہ موج کا ہلکا سا تھپیڑا بھی اسے تختہ تختہ کر سکتا ہے۔
چشمِ فرانسیس بھی دیکھ چکی انقلاب
جس سے دگرگوں ہوا مغربیوں کا جہاں
فرانسیس نے بھی انقلاب کا نقشہ دیکھ لیا، جس میں نہ محض فرانس کی پرانی شہنشاہی ہی ختم ہوئی، بلکہ یورپ کے پورے پرانے نظامِ سلطنت میں الٹ پلٹ شروع ہو گئی، یعنی دوسرے ملکوں میں بھی بادشاہی کو ختم کر کے جمہوریتیں قائم ہونے لگیں اور وہاں نئی تہذیب نے فروغ حاصل کیا۔
انقلاب فرانس: یہ انقلاب فرانس کی شہنشاہی کے خلاف تھا۔ چنانچہ بادشاہ، ملکہ اور بڑے بڑے امیر قتل کر دیے گئے اور جمہوریت قائم ہوگئی۔ پھر نپولین برسرکار آگیا اور فرانس میں از سرِ نو شہنشاہی کا تخت بچھ گیا، لیکن انقلاب فرانس کی بدولت یورپ میں شہنشاہی کی جڑ پر کلہاڑے چلنے لگے۔
اٹھارہویں صدی عیسوی میں ایک عظیم انقلاب برپا ہوا۔ جس کا نام ہی انقلاب فرانس ہے۔ اس کی مفصل تاریخ کارلائل نے انگریزی کتاب میں لکھی ہے۔ اس انقلاب سے اہل مغرب کی دنیا ہی بدل گئی کیونکہ اس انقلاب کی بدولت یورپ کی قومیں حریت، اخوت اور مساوات کے الفاظ سے آشنا ہوئیں، شاید کبھی مفہوم سے بھی آگاہ ہو جائیں۔
نوٹ: میں نے جو یہ لکھا ہے کہ اقوامِ مغرب ان لفظوں کے معانی سے ہنوز آشنا نہیں ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اصول سہ گانہ عقیدہ توحید کا منطقی نتیجہ ہیں۔ اس لیے جب تک کوئی قوم خالص توحید کے عقیدہ پر حامل نہ ہو، وہ ان الفاظ کے مفہوم سے کیسے آگاہ ہو سکتی ہے۔ جب تک کوئی قوم توحید کو ایک عنصر فعال کی حیثیت سے اپنی اجتماعی زندگی میں داخل نہ کرے، اس وقت تک یہ پاکیزہ اصول عملی جامہ نہیں پہن سکتے۔
جب مسلمان زندہ تھے تو یہ اصول بھی ان کی زندگی سے مترشخ ہوتے تھے، چناچہ اقبال نے رموز بیخودی میں ان کے تاریخی خواہد پیش کیے ہیں لیکن اب عرصہ دراز سے” مسلمانان درگور و مسلمانی در کتاب” والا مضمون ہے۔ اس لیے آج کے دور میں حریت، خوت اور مساوات۔۔۔۔ یہ تین لفظ ایسے ہیں کہ ان کا مفہوم تو مسلمانوں کے ذہن میں موجود ہے لیکن ان کا مصداق خارج میں کہیں موجود نہیں ہے۔
انقلاب فرانس کی داستان بھی بہت طویل ہے۔ اس جگہ صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ فرانس کے باشندے چونکہ شخصی حکومت کے تلخ ثمرات سے تنگ آچکے تھے اس لیے ” تنگ آمد بجنگ آمد” والا معاملہ ہوگیا کہ 5 مئی 1789 کو پیرس میں سارے ملک کے نمائندوں کی مجلس منعقد ہوئی اور اس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ملوکیت کو ختم کرکے جمہوریت قائم کرنی چاہیے، چنانچہ تین سال کی جدوجہد کے بعد 1792 میں فرانس میں جمہوریت قائم ہو گئی اور لوئس شہنشاہ فرانس کو جنوری 1793 میں اور اس کی ملکہ ماری انٹوینٹ جو اکتوبر 1793 میں بجلی کی کرسی پر بٹھا کر سوئے عدم روانہ کیاگیا اور اس طرح فرانس ہمیشہ کے لیے ملوکیت کی لعنت سے آزاد ہو گیا۔
ملت رومی نژاد کہنہ پرستی سے پیر
لذتِ تجدید سے وہ بھی ہوئی پھر جواں
ملت رومی نثراد یعنی رومی نسل کی ملت، مراد ہے اہل اٹلی جو قدامت پرستی ( پرانی روایات کو ماننا) کرتے کرتے بوڑھے ہو گئے تھے، وہ مسولینی کی رہنمائی میں تجدید کی لذت سے جوان بن گئے، یعنی ان میں بھی زندگی کی نئی روح پیدا ہوگئی اور وہ عظمت و برتری کے دعوے کرنے لگے۔
لذتِ تجدید کے لفظی معنی ہیں تازہ کرنے کی لذت؛ اس مصرع میں اشارہ اٹلی کی اس عظمت و برتری کی طرف ہے، جو اسے مسولینی کی ماتحتی سے حاصل ہوئی لیکن دوسری جنگ یورپ میں عظمت بھی یورپ کی بعض دوسری عظمتوں کی طرح حرفِ غلط کی طرح مٹ گئی۔
روح مسلماں میں ہے آج وہی اضطراب
راز خدائی ہےیہ، کہہ نہیں سکتی زباں
مسلمان کی روح میں بھی آج وہی بے قراری، وہی تڑپ لہریں لے رہی ہے، اس کا نتیجہ کیا ہونے والا ہے؟ یہ خدائی بھید ہے، زبان میں یہ طاقت نہیں کہ اسے کھول کر بیان کر سکے۔
دیکھیے اس بحر کی تہ سے اچھلتا ہے کیا
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
سمندر میں طوفان کے آثار نمودار ہیں۔ دیکھیے اس کی تہہ سے اچھل کر کیا نکلے گا؟ اور یہ نیلا آسمان جو ہمارے سر پر چھایا ہوا ہے، کیا رنگ بدلے گا؟
Stanza 8
وادی کہسار میں غرق شفق ہے سحاب
لعل بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب
آخری بند میں اقبال اس وقت کا منظر پیش کر رہے ہیں جب یہ نظم کہی گئی تھی۔ یہ منظر کشی حد درجہ موزوں اور دل کشا ہے۔
اس آخری بند کا پہلا شعر فنی اعتبار سے بے نظیر ہے۔ ساری نظم میں اس کا جواب نہیں ہے۔ دوسرے مصرع میں استعارہ بالکنایہ نے اس شعر کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔ شاعر نے پہلے آفتاب کو ایک تاجر قرار دیا ہے، پھر اس کے لیے لعل بدخشاں کے ڈھیر ثابت کیے ہیں۔
پہاڑ کی وادی میں بادل شفق کی سرخی میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورج غروب ہوتے ہوتے بدخشاں لعل کے ڈھیر چھوڑ گیا۔
یہ غروب آفتاب کا نظارہ ہے، غروب کے ساتھ ہی جو شفق نمایاں ہوتی ہے، اس کی شوخی ہر شے پر تھوڑا بہت رنگ چڑھا دیتی ہے اور بادل کا کوئی ٹکڑا افق پر موجود ہو تو وہ سراسر سرخ ہو جاتا ہے، اسی کو اقبال نے سرخی کی بنا پر “لعل بدخشاں” کا ڈھیر کہا۔ چونکہ یہ ڈھیر غروب آفتاب سے پیدا ہوئے تھے اس لیے کہا کہ یہ آفتاب چھوڑ گیا۔
سادہ پرسوز ہے دختر دہقاں کا گیت
کشتی دل کے لیے سیل ہے عہد شباب
عین اسی وقت کسی دیہاتی لڑکی کا نغمہ فضا میں گونجا۔ اس کی لے بہت سادہ تھی۔ اس لیے کہ دیہاتی لڑکیاں موسیقی کا فن سیکھ کر نہیں گاتیں، محض خوش گلوئی کی بدولت شوق پورا کرلیتی ہیں۔ سادگی کے باوجود اس لے میں سوز بھرا ہوا تھا۔ سچ ہے، جوانی کا زمانہ دل کی کشتی کے لیے سیل کا حکم رکھتا ہے، یعنی اسے جدھر چاہتا ہے، بہا لے جاتا ہے۔
اقبال نے اس مصرع میں عالم انسانیت کی بہت بڑی حقیقت بیان کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جوانی کی حیثیت ایک تیز و تند سیل کی سی ہے۔ اس میں نہ کہیں اٹکاو ہے نہ ٹھہراؤ۔۔ جدھر رخ ہو گیا۔ اس میں نفع ونقصان کا موازنہ بھی عموماً نہیں ہوتا۔ یہ کیفیت اسی شخص پر واضح ہو سکتی ہے، جس نے تیز و تند سیل میں کشتی کو بہتے ہوئے دیکھا ہو۔ جوانی گزر جائے تو انسان ہر کام سوچ سمجھ کر کرتا ہے، قدم قدم پر رکتا ہے، گردو پیش کو دیکھتا ہے جب آگے بڑھتا ہے۔ اس مصرع میں میں ایک خوبی یہ ہے کہ جوان لڑکی کا گیت سننے والے ہر شخص کے دل پر ایک خاص کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور جب تک یہ کیفیت رہتی ہے، وقت اس طرح گزر جاتا ہے جیسے زندگی کی کشتی ایک سیل میں بہہ رہی ہو۔۔۔ ابھی یہاں تھی، تھوڑی دیر میں کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔
آب روان کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
اقبال اس عالم میں دریا کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ؛
اے وادی کبیر کے دریا! تیری کنارے کوئی شخص بیٹھا ہوا کسی اور ہی زمانے کا خواب دیکھ رہا ہے۔
آب روان کبیر: وادی الکبیر اندلس کا مشہور دریا، جس کے دونوں کناروں پر قرطبہ آباد ہے۔ مسجد قرطبہ بھی اس دریا کے قریب ہی واقع ہے۔
عالم نو ہے ابھی پردہ تقدیر میں
میری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بے حجاب
جس آنے والے زمانہ کا ذکر کررہا ہوں وہ اگرچہ ابھی دنیا کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے لیکن میں اس کے آغاز کو دیکھ رہا ہوں۔
پردہ اٹھا دوں اگر چہرہ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
میں اگر اپنے تصورات کے چہرے سے پردہ اٹھا دوں اور بتا دوں کہ کیا کچھ ہونے والا ہے تو یورپ میری انقلابی باتوں کی تاب نہ لا سکے گا۔
جس میں نہ ہو انقلاب، موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
اس کے بعد اقبال مسلمان سے خطاب کرتے ہیں کہ زندگی انقلاب کا دوسرا نام ہے۔ جن اقوام میں انقلاب برپا کرنے کی آرزو نہ ہو ان اقوام کا شمار زندہ اقوام میں نہیں کیا جاسکتا۔ قوموں کی زندگی صرف انقلاب پیدا کر سکنے پر منحصر ہے۔
صورت شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
جو قوم ہر وقت اپنے اعمال کی جانچ پڑتال کرتی رہتی ہے، اسے اندازہ رہتا ہے کہ کہاں لغزش ہوئی، کہاں ٹھوکر کھائی۔ وہ اپنی لغزش اور ٹھوکر کی تلافی کر لیتی ہے۔ لہذا وہ زندگی کے میدان میں ہمیشہ کامیاب رہتی ہے اور قدرت کے ہاتھ میں تلوار کا کام دیتی ہے، یعنی اسی سے قدرت اپنے تمام کام لیتی ہے یعنی خدا اسی قوم کو اقوامِ عالم کی سرداری عطا فرماتا ہے۔
نقش ہیں سب ناتمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
ان نقوش میں اگر جگر کا خون شامل نہ ہو، تو یہ نا مکمل رہتے ہیں۔ خون جگر کے بغیر شاعری بھی سودائے خام کے سوا کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔
اس بند کا آخری شعر پوری نظم کی جان ہے کیونکہ اس میں اقبال نے اپنا فلسفہ (جسے ان کے پیغام کی روح سے تعبیر کرسکتے ہیں) بیان کردیا ہے۔ کہتے ہیں کہ قوموں کی ترقی دو باتوں پر موقوف ہے:
پہلی بات یہ ہے کہ قوم کے سامنے کوئی نہ کوئی نصب العین ضرور ہونا چاہیے۔جو قوم اپنا مقصد حیات متعین نہیں کرتی اس زندگی بالکل بے معنی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اس نصب العین کے حصول کا جذبہ عشق کے درجہ پر پہنچ جائے۔ کیونکہ عشق کے بغیر سب ارادے ناتمام رہتے ہیں، عشق کے بغیر کوئی قوم جدو جہد میں کامیاب نہیں رہتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ انہیں اس حقیقت کو ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ انقلاب آئین حیات ہے۔
یعنی عروج و زوال کے دنوں کو ہم یونہی لوگوں میں نوبت بہ نوبت لاتے رہتے ہیں۔ آج ایک قوم برسر عروج ہے کل دوسری قوم۔ پس مسلمانوں کو انقلاب برپا کرنے کی تیاری کرنی چاہیے اور اس کی صورت ایک ہی ہے یعنی وہ اپنے عشق کا جذبہ پیدا کرلیں۔ نصب العین کا حصول اسی جذبہ عشق پر موقوف ہے ۔