تعارف
تموجن کا جگری دوست جموکا اس کے سامنے گرفتار کرکے لایا گیا۔ تموجن نے اسے دوبارہ دوست بن جانے کی پیشکش کی۔ لیکن جموکا نےاسے جو جواب دیا، وہ تموجن کے لیے ایک سرپرائز آ نسر تھا۔ یہ جواب کیا تھا؟ تموجن ایک معمولی سے سردار سے چنگیز خان کیسے بنا؟ یہ کٹھن سفر بے وفایوں اور ان گنت خون کے دھبوں سے سرخ ہے لیکن یہ سفر ہے کیا؟
تموجن اور جموکا کی دوستی
تموجن کے بچپن میں ایک دوسرا منگول قبیلہ”جیدارد”ہر موسم سرما میں تموجن کے قریب آ کر اپنا کیمپ لگایا کرتا تھا۔ یہ لوگ تموجن کی طرح شکاری نہیں تھے۔ بلکہ بھیڑ بکریاں چرانے والے پرامن خانہ بدوش تھے۔ ان کے تموجن کے قبیلے سے اچھے مراسم تھے۔ وہ ایک دوسرے پر حملے بھی نہیں کرتے تھے۔ اسی قبیلے کے ایک بچے جموکا سے تموجن کی گہری دوستی ہوگئی۔ اتنی گہری دوستی کے دونوں اکٹھے شکار کھیلتے۔ ایک برتن میں کھانا کھاتے۔ یہاں تک کہ دا سیکرٹ ہسٹری آف منگولز، جوچنگیز خان کے بارے میں لکھی گئی سب سے پرانی کتاب ہے۔ اس میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ تموجن اور جموکا ایک ہی بستر میں سوتے تھے۔
یہاں تک کہ بارہ برس کی عمر میں دونوں ایک دوسرے کا خون بھی پی چکے تھے۔ منگولوں میں روایت تھی کہ جب کوئی دو افراد گہرے دوست بنتے، وفاداری کا حلف لیتے تو علامتی طور پر ایک دوسرے کو تحفہ دیتے تھے۔ اس دوران وہ ایک دوسرے کے خون کے چند قطرے بھی پیتے تھے۔ اس رسم کو منگول ‘اینڈا’ کہتے تھے۔ انگلش میں آپ اسے بلڈ برادرز کہہ سکتے ہیں۔

بلڈ برادرز
ایک دن جموکا نے شکار کے بعد مردہ بچھڑے کے سینگ اکھاڑ لیے۔ان میں سوراخ کیا ایک ہار بنایا اور تموجن کو تحفتاً پیش کر دیا۔تموجن نے بھی جواب میں ایک تیر کا تحفہ جموکا کو دیا۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خون کے چند قطرے پیے۔اب وہ دونوں روایتی طور پر یک جان دو قالب بن چکے تھے ۔اب وہ ایک دوسرے کے لیے جان بھی دے سکتے تھے۔اور لے بھی سکتے تھے۔کیونکہ یہ تحفے اور رسم غیر معمولی اہمیت کی حامل تھی۔لیکن ظاہر ہے وہ خانہ بدوش ہی تھے۔ کبھی اس ندی کے کنارے تو کبھی اس پہاڑ کے دامن میں جا بستے۔
بچپن کے چند برس ساتھ گزارنے کے بعد دونوں دوست بچھڑ گئے۔ بچھڑ تو وہ گئے لیکن بھولے نہیں۔وہ آتے جاتے قافلوں سے ایک دوسرے کی خیر خبر لیتے رہتے تھے۔ اسی طرح جب تموجن کی بیوی بولتے اغوا ہوئی تو اسے چھڑوانے کے لیے جو بیس ہزار کا ایک مددگار لشکر آیا تھا۔وہ جموکا ہی کا تھا۔ تو بورتے کی واپسی کے بعد سے جموکا اور تموجن ایک ہی کیمپ میں رہنے لگے تھے۔ اس وقت تک جموکا اپنے قبیلے کا سردار بھی بن چکا تھا۔ اور تموجن بھی اپنے گرد بہت سے وفادار جمع کر چکا تھا جن کا اب وہ ایک سردار ہی تھا۔
اقتدار کی جنگ
اب یہ ہوا کہ دونوں دوستوں نے ایک بڑی فوج بنانا شروع کر دی۔ انہوں نے مل جل کر خانہ بدوش منگولوں کو اپنے اردگرد اکٹھا کرنا شروع کیا۔ تاکہ ایک بڑی فوج بنائی جاسکے۔ دونوں نے بڑی فوج تو اکٹھی کرنا شروع کر دی تھی۔ لیکن بات یہ تھی کہ یہی تو مسئلہ تھا ۔ کہ دونوں ہی پورے منگولیا پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ منگولیا میں ایک کہاوت تھی کہ جسے دو سورج نہیں ہو سکتے ایسے ہی منگولوں کے دو سردار بھی نہیں ہو سکتے۔ اور اقتدار کی جنگ میں خون کے رشتے پھیکے پڑ جاتے ہیں۔
پھر یہ تو بلڈ برادرز یا اینڈا کی رسم کے نتیجہ میں بنے ہوئے بھائی تھے۔ تو دونوں نے مکمل اقتدار کے لیے رسہ کشی شروع کر دی۔ یہ رسہ کشی چھوٹی چھوٹی رنجشوں کی شکل میں ظاہر بھی ہونے لگی۔ جموکا نے تموجن سے شکایت کی تھی کہ وہ فوج میں نیچ ذات کے لوگوں کو کمانڈرز کیوں بنا رہا ہے؟ اور اعلیٰ ذات کے لوگوں کو آخر کہاں نظر انداز کر رہا ہے۔ اس کی یہ شکایت دور نہیں ہوئی تو تموجن سے وہ اکھڑا اکھڑا رہنے لگا۔ ایک روز اس نے تموجن سے کہا تم اپنی گائیوں اور بھیڑوں کے ساتھ دریا کنارے کیمپ لگا لو۔جبکہ میں اپنے گھوڑوں کو لے کر گھاس کے میدان میں کیمپ لگانے جا رہا ہوں۔
دوستی کا خاتمہ
یہ بات تموجن کی بیوی بورتے نے جب سنی تو اس نے اپنے شوہر کو خبردار کرتے ہوئے کہا، کہ جموکا تمھاری دوستی سے بیزار ہوچکا پے۔ اس لئے اسے چھوڑ کے آگے بڑھو اور رات کے وقت سفر کرنا۔ ہوشیار رہنا۔ تموجن نے ایسا ہی کیا۔ چناچہ تموجن اور اس کے ساتھی، جموکا اور اس کے خاندان کو پیچھے چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں کیمپ سے نکل گئے۔ انہوں نے جموکا کے کیمپ سے بہت دور پہنچ کر اپنا کیمپ لگا لیا۔ یوں ڈیڑھ برس اکٹھے رہنے کے بعد دونوں دوستوں کے راستے الگ الگ ہوگئے۔ اب دونوں دوست اپنی الگ الگ فوج بھی بنانے لگے۔ اور پھر تموجن کو کسی نے اطلاع دی اس کا پرانا بھگوڑا قبیلہ، جس کا سردار کبھی اس کا باپ تھا۔
اور جس نے اس پر حملہ بھی کیا تھا، اور اسے قیدی بھی بنایا تھا۔ وہ قبیلہ اور اس کے لوگ جموکا سے دوستی کا رشتہ بنا چکے ہیں۔یہ تموجن کے بچپن کے دوست، بلڈ برادر جموکا کی طرف سے دوستی ختم کرنے کا عملاً اعلان تھا۔ بلکہ ایک طرح سے دشمنی کا آغاز تھا۔ تو یوں تھا کہ دونوں کیمپوں میں ایک الگ الگ تقریب منعقد ہوئی۔ اور منگولیا میں یوں تھا کہ جیسے دو سورج نکل رہے ہیں۔جموکا کے کیمپ میں ایک تقریب جاری تھی۔جس میں اس کے بہت سے حامی قبائل جمع تھے۔ انہوں نے جموکا کو گور خان کا خطاب دیا۔اس کا مطلب تھا منگولوں کا سب سے بڑا سردار۔
خطاب
یہ خطاب دینے والے تیرہ سے سولہ قبائل تھے۔لیکن ہوا یہ کہ جموکا کے کچھ حامی کسی وجہ سے اسے چھوڑ کر اس دوران تموجن سے آن ملے تھے۔ ان میں سے ایک شخص نے تموجن کو بتایا کہ اس نے ایک عجیب وغریب خواب دیکھا ہے۔ اس نے دیکھا ہے کہ زمین و آسمان ایک ہو گئے ہیں۔ اور ایک ہو کر کہہ رہے ہیں کہ سب سے بڑا خان صرف تموجن ہی کو ہونا چاہئے۔ تو تموجن کے کیمپ میں بھی ایک تقریب منعقد ہوئی۔ تموجن کو چنگیز خان یعنی پوری کائنات کے سردار کا لقب دیا گیا اور خوب جشن منایا گیا۔ آپ غور کیجئے کہ دونوں منگولوں کے سب سے بڑے سردار بننا چاہتے تھے۔ لیکن کسی نے خاقان کا لقب اختیار نہیں کیا۔ حالانکہ منگولوں میں سب سرداروں کے سردار کو خاقان کہا جاتا تھا۔
ظاہر ہے اس کی وجہ یہ تھی کہ دونوں جانتے تھے کہ جب تک ان میں سے ایک ختم نہیں ہو جاتا یا دوسرے کی اطاعت قبول نہیں کر لیتا، دوسرا کبھی خاقان نہیں کہلا سکتا۔ کبھی جو ایک دوسرے کا خون پی کر خون کے رشتے میں بندھے تھے۔ آج ایک دوسرے کا خون بہانے کی تیاری کر رہے تھے۔سچ ہے طاقت کی جنگ میں اخلاق نام کا کوئی ہتھیار نہیں ہوتا۔دو بلڈ برادرز میں اقتدار کی جنگ سامنے کھڑی تھی۔ بس ایک چنگاری نکلنے کی دیر تھی۔ اور پھر ایک معمولی سا واقعہ اس چنگاری کو نکالنے کا بہانہ بن گیا۔ دا سیکرٹ ہسٹری آف منگولز کے مطابق جموکا کے بھائی تیچار نے چنگیز خان کے ایک دوست کے گھوڑے چورا لئے۔ چنگیز خان کے ساتھی نے چور کا پیچھا کیا اور اسے تیر مار کر ہلاک کر دیا۔
تلخ کلامی
جب جموکا کو اپنے بھائی کی موت کا علم ہوا تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے تیس ہزار کا لشکر تیار کیا اور چنگیز خان پر دھاوا بول دیا۔ چنگیز خان کے پاس صرف تیرہ ہزار کی فوج تھی۔ اس مختصر فوج نے جموکا کی بڑی فوج کا خوب مقابلہ کیا لیکن میدان جموکا کے ہاتھ رہا۔ چنگیز خان شکست کھا کر بھاگ نکلا اور ایک گھاٹی میں پناہ لے کر چھپ گیا۔ ایک تو وہ ہار کا زخم چاٹ رہا تھا۔ دوسرا ستم یہ ہوا کہ اسے ایک دردناک خبر اور ملی۔ خبر یہ تھی کہ اس کے ایک اتحادی قبیلے جرکن کے کچھ لوگوں کو جموکا نے پکڑلیا تھا۔ اور اس خبر میں دردناک یہ تھا کہ ان میں سے ستر لوگوں کو جموکا نے کھولتے پانی میں ڈبو کر ہلاک کر دیا تھا۔
چنگیز خان کی قسم
جب چنگیز خان کو اس کا علم ہوا تو اس نے ایک قسم کھائی۔قسم یہ کہ اب وہ خود کو یوں تیار کرے گا کہ اسے کبھی شکست کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اس نے ایک بار پھر فوج جمع کرنا شروع کی۔ اس نے اپنے پرانے اتحادی قبیلے کرائیت کے سردار اونگ خان سے رابطہ کیا۔
اونگ خان نے چنگیز خان کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ اور ایک بڑی فوج لے کر چنگیز خان کی مدد کو پہنچ گیا۔ جموکا کے خلاف اب ایک بڑا لشکر تیار ہو چکا تھا۔ لیکن جموکا کے خلاف فیصلہ کن کارروائی سے پہلے چنگیز خان تاتاریوں سے دو دو ہاتھ کرنا چاہتا تھا۔ کیونکہ یہ لوگ صدیوں سے ان کے خاندانی دشمن تھے۔ انہوں نے ہی چنگیز خان کے باپ یسوگئی کو زہر دے کے قتل کیا تھا۔ چنگیز خان اور اس کے اتحادی اونگ خان نے فیصلہ کن حملہ کر کے تاتاری قبائل اور ان کی طاقت کو تتر بتر کر کے رکھ دیا۔
تاتاریوں کا خاتمہ
چنگیز خان نے فوج کو حکم دے دیا کہ جس بھی تاتاری مرد کا قد ایک چھکڑے کے ایک پہیے سے اٹھتا ہوا نظر آئے اس کی گردن اتار دی جائے۔ یہ حملہ اتنا زوردار تھا کہ تاتاریوں کی کمر ٹوٹ گئی۔ وہ اتنے کمزور ہو گئے کہ لمبے عرصے کے لیے مقابلے کی سکت ہی کھو بیٹھے۔ تاتاریوں کے خلاف مہم کے دوران چنگیز خان اور اونگ خان کو چین کے شاہی خاندان چن خاندان کی بھی بھرپور مدد حاصل تھی۔ وجہ یہ تھی چینی حکمران بھی اپنے بارڈر کے قریب رہنے والے تاتاری قبائل سے پریشان رہتے تھے۔ ایسے ہی گروہوں کے حملوں سے بچنے کے لیے وہ دیوار چین جیسی عظیم دیواریں کھڑی کرتے آئے تھے۔ اس لیے جب تاتاریوں کو عبرتناک شکست ہوئی تو چینی حکمران بھی بہت خوش ہوئے۔
انہوں نے اونگ خان کو ‘وانگ’ کا خطاب دیا جس کا مطلب تھا شہزادہ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہ چنگیز خان کی صلاحیتوں کو نہ پہچان سکے۔ انہوں نے اسے کمانڈر کا خطاب دیا۔ اس خطاب کی چین میں کوئی خاص اہمیت نہیں تھی۔ لیکن وقت کا ستم تو دیکھیے جسے وہ معمولی کمانڈر سمجھ رہے تھے وہ چند برس بعد ہی ان کا بادشاہ بننے والا تھا۔
جموکا کی شکست
تاتاریوں کے بعد چنگیز خان ایک بار پھر جموکا کی طرف متوجہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چنگیز خان کے مقابلے میں اس بار جموکا کے ساتھ جادوگر بھی شامل تھے۔ لیجنڈز کے مطابق جادوگروں نے جموکا کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ جادو سے ایک زبردست طوفان لے آئیں گے اور چنگیز خان کا لشکر اس طوفان میں بہہ جائے گا۔ جنگ شروع ہوئی، جادوگروں نے منتر پھونکنے شروع کیے۔ اور ہاں ایک طوفان بھی آیا لیکن اس کا نشانہ الٹا ہوگیا۔
وہ یوں کہ جادوگری کے تماشے کے دوران ہی کسی وقت اتفاق سے برفباری شروع ہو گئی اور طوفانی ہوائیں چلنے لگیں۔ لیکن تموجن کی جگہ جموکا کی فوج اس طوفان میں اپنی ترتیب کھو بیٹھی۔اس کے مختلف دستے ایک دوسرے سے بچھڑنے لگے اور فوج کی کمان ٹوٹ گئی۔ جب اپنی چالوں کو الٹا پڑتے دیکھا تو جادوگر بھی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ نکلے۔ وہ بھاگتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ آسمان کو ہم سے محبت نہیں رہی۔ آسمان ہم سے خوش نہیں۔ آسمان ہم سے دور ہوگیا ہے۔
طوفان
جب طوفان کا زور ٹوٹا تو چنگیز خان بھی جموکا کی بچی کھچی فوج پر آسانی سے ہاتھ صاف کرنے لگا۔ اس بار جموکا میدان سے بھاگ گیا تھا اور چنگیز خان کے قہر سے بچ رہا تھا۔ لیکن چنگیز خان کے ہاتھ اس کے کچھ خاص لوگ آچکے تھے۔ یہ لوگ چنگیز خان کو ویسے بھی بہت مطلوب تھے۔ کیونکہ یہ وہی لوگ تھے جو دراصل اس کے باپ کی سرداری میں اسی کے قبیلے لوگ تھے۔ جنھوں نے یسوگئی کی موت کے بعد چنگیز خان اور اس کی ماں کو تنہا چھوڑ کر اپنا راستہ لیا تھا۔ انھوں نے چنگیز خان کو قیدی بھی بنایا تھا۔
زخمی شیر
چنگیز خان نے ان کے ساتھ یہ کیا کہ ان میں سے ایک خاندان کو جس نے اس کی ماں اور اس سے سرداری چھینی تھی ان کے بچوں کو بھی قتل کروا کر ان کی نسل ہی ختم کر دی۔ لیکن قبیلے کے دوسرے افراد کو چنگیز خان نے معاف کر کے اپنی سرداری میں دوبارہ قبول کر لیا۔ ویسے بھی ان لوگوں کے پاس اب دو ہی چوائسز تھی۔ چنگیز خان کی بلا چوں چرا اطاعت یا گردن کے بغیر جسم۔ سو گردن کے بغیر جسم سے بہت بہتر تھا کہ وہ چنگیز خان کی اطاعت قبول کر لیں۔ جنگ تو چنگیز خان جیت گیا تھا لیکن اس جنگ کے دوران ایک بار وہ گردن میں شدید زخم آنے سے مرتے مرتے بچا بھی تھا۔ ہوا یہ تھا جموکا اور اس کے اتحادیوں سے لڑائی کے دوران چنگیز خان کی گردن پر ایک گہرا زخم آگیا۔
شاید چنگیز خان کی کہانی اسی گردن کے زخم میں بہتے خون کے ساتھ ختم ہو جاتی۔ لیکن یہاں اس کا ایک وفادار جیلمی کام آگیا۔ جیلمی رات بھر چنگیز خان کے سرہانے بیٹھا رہا اور اس کے زخم میں جمنے والے خون کے لوتھڑے چوس چوس کر نکالتا رہا۔ پھر جب چنگیز خان کو پیاس لگی تو جیلمی اس کیلیئے دودھ تلاش کرنے کے لیے بھی نکل گیا۔ اتفاق سے چنگیز خان کے خیمے اور اس کے اردگرد کے کسی علاقے میں دودھ دستیاب نہیں تھا۔ لیکن دشمن کا کیمپ بھی چنگیز خان کے کیمپ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ جیلمی نے جرات سے کام لیا اور چھپتا چھپاتا دشمن کے کیمپ سے دودھ کا ایک برتن چوری کر کے لے آیا۔ اس سے چنگیز خان کی پیاس بجھی اور رفتہ رفتہ زخم بھی بھر گیا۔
اونگ خان کی دشمنی
چنگیز خان کو جموکا کے خلاف ایک اہم کامیابی مل چکی تھی۔ اور اس کا پرانا قبیلہ بھی اس کی اطاعت میں آچکا تھا۔ لیکن اس دوران چنگیز خان کو ایک دھچکا بھی لگا۔ اونگ خان دوست کی بجائے اب اس کا دشمن ہوگیا تھا۔ اس دشمنی کی وجہ یہ تھی کہ اونگ خان کے بیٹے نے تموجن کے بیٹے جوچی خان کیلئے اپنی بہن کا رشتہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔پھر اس نے اپنے باپ کو بھڑکایا کہ وہ چنگیز خان کو زیادہ اہمیت نہ دے۔ اس کے بعد تموجن کو بہانے سے بلا کر قتل کرنے کی بھی ناکام کوشش کی گئی۔
وہ اپنے باپ سے کہنے لگے تھے کہ چنگیز خان ہمارے سابق اتحادی اور موجودہ مخالف ترک قبیلے نیمان سے دوستی کر رہا ہے۔ اونگ خان اپنے بیٹوں کی ان باتوں میں آگیا۔ اور چنگیز خان جیسے طاقتور دوست کو دشمن بنانے کی ایک مہنگی غلطی کر بیٹھا۔کبھی نہ شکست کھانے کی قسم تو وہ پہلے ہی کھا چکا تھا۔ تو اس نے بجائے اونگ خان کا انتظار کرنے کے خود اسکے کیمپ پر حملہ کر دیا۔
اپنے پرانے اتحادی کے کیمپ کو گھیرے میں لے کر چنگیز خان نے جنگ شروع کر دی۔تین دن تک دونوں میں خوفناک لڑائی ہوئی۔ تیسرے دن اونگ خان کیمپ چھوڑ کر بھاگ گیا۔ وہ بھاگتا ہوا اپنے سابق اتحادی اور موجودہ مخالف نیمان قبیلے کے علاقے میں پہنچ گیا۔ یہاں ایک پہرے دار نے اونگ خان کو پہچانا نہیں اور اور چور اچکا سمجھ کر قتل کر دیا۔ اس قتل کے فوراً بعد چنگیز خان اور نیمان قبیلے کے درمیان بھی جنگ چھڑ گئی۔ ایسا کیوں ہوا؟ دراصل اس کے پیچھے بھی ایک داستان ہے۔

نیمان قبیلہ
کہتے ہیں جب نیمان قبیلے کو علم ہوگیا کہ اونگ خان کو ان کے پہریدار نے قتل کر دیا ہے تو انہیں بہت دکھ ہوا۔ کیونکہ نیمان قبیلہ بھلے اونگ خان کے قبیلے کے مخالف ہوگیا تھا، لیکن ماضی کے اچھے تعلقات کی وجہ سے اس قبیلے کے بڑے اونگ خان جیسے معزز سردار کی موت نہیں چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنی روایات کے مطابق اس کا سر کاٹ کر اپنے کیمپ کے ایک خیمے میں لے آئے۔ یہاں اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اسے عزت دینے کے لیے ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی۔
نیمان قبیلے کی بوکھلاہٹ
دعوت میں اونگ خان کا نام لے کر شراب کے جام پیے جانے لگے۔ داستان کے مطابق اس دوران اونگ خان کے کٹے ہوئے سر سے مبینہ طور پر ہنسنے کی آوازیں آنے لگیں۔ شاید یہ بہت شراب پی جانے کے بعد ان کے وہم کا شاخسانہ تھا۔ لیکن سر کو ہنستا دیکھ کر نیمان قبیلے کا سردار تیانگ خان بوکھلا گیا۔ اسی بوکھلاہٹ میں اس نے اونگ خان کے سر نیچے گرایا پاؤں تلے کچل کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ جب وہ ایسا کر رہا تھا تو باہر سے کتوں کے زور زور سے بھونکنے کی آوازیں آنے لگیں۔جس سے لوگوں نے یہ برا شگون اخذ کیا کہ ان پر کوئی بڑی آفت آنے والی ہے۔ اور اس آفت کا نام تھا چنگیز خان۔
ہوا یوں کے جب نیمان قبیلے کے سردار کو معلوم ہوا کہ چنگیز خان نے منگولیا کے بڑے حصے کو کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ تو اسے اپنا قبیلہ خطرے میں نظر آیا۔ چنگیز خان نے تیانگ خان کے ایک بھائی کو بھی ایک لڑائی میں شکست دی تھی۔ لیکن تیانگ خان خود کو اپنے بھائی سے کہی زیادہ طاقتور جنگجو سمجھتا تھا۔ سو اس نے چنگیز خان سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا۔ اپنی طاقت بڑھانے کے لیے اس نے چنگیز خان کے دشمن اور پرانے دوست جموکا کو بھی ساتھ ملایا اور جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ مگر ہوا یہ کہ ان کے حملے کا پلان پہلے ہی سامنے آ گیا۔ اس کی مخبری چنگیز خان تک پہنچ گئی۔ چنگیز خان تو نہ ہارنے کی قسم کھائے بیٹھا تھا۔ وہ فوری طور پر جنگ کیلئے نکل کھڑا ہوا۔
جنگی حکمت عملی
جب وہ نیمان قبیلے کے علاقے میں پہنچا تو اس نے یہ حکم دیا کہ اس کا ہر سپاہی رات کو آگ کے پانچ، پانچ الاؤ روشن کرے۔ سپاہیوں نے ایسا ہی کیا۔ جب میدان جنگ میں اتنے زیادہ اور اتنے دور تک الاؤ روشن ہوئے۔ تو نیمان قبیلے کے وہ جاسوس جو دور پہاڑوں اور جنگلوں میں چھپے جاسوسی کر رہے تھے ڈر گئے۔ انہوں نے اپنے سردار کو اطلاع دی کہ منگولوں کے کیمپ میں اتنے الاؤ جل رہے ہیں جتنے آسمان پر ستارے۔ یعنی منگولوں کا لشکر بہت ہی بڑا ہے۔
جموکا کی ڈبل گیم
اس خبر نے نیمان لشکر کے حوصلے پست کردئیے۔ چنانچہ اگلے روز جب وہ میدان میں نکلے تو وہ ہاؤ ہُو تو کر رہے تھے۔ مگر ان میں جوش وخروش نہیں تھا۔ دوسری طرف چنگیز خان پوری طرح تیار تھا۔ اس نے اپنے لشکر کو کئی چھوٹے چھوٹے لشکروں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ہر لشکر مختلف سمت سے نیمان قبیلے اور جموکا کی فوج کو گھیرنے لگا۔ چنگیز خان کے سپاہی مسلسل تیروں کی بارش کر کے نیمان قبیلے کو پیچھے پہاڑوں کی طرف دھکیلنے لگے تھے۔ لیکن نیمان قبیلہ کوئی معمولی قبیلہ نہیں تھا۔
اسے شکست دینا اتنا آسان کام نہیں تھا۔ مگر یہاں ایک موڑ آچکا تھا۔ وہ یہ کہ چنگیز خان کا پرانا دوست اور پھر دشمن جموکا ڈبل گیم کرنے لگا۔ وہ نیمان قبیلے کا اتحادی تھا۔ جنگ میں شریک تھا لیکن اس نے چنگیز خان کو خفیہ پیغامات بھیجنا شروع کر دیئے۔ شاید وہ چنگیز خان سے کئی لڑائیاں لڑنے کے بعد سمجھ گیا تھا کہ اسے ہرانا ممکن نہیں۔ اسی لیے وہ چنگیز خان کو خفیہ طور پر اعتماد میں لے کر نیمان قبیلے کے سردار تیانگ خان کو بھی مسلسل پیچھے ہٹنے کے مشورے دے رہا تھا۔ چنگیز خان بھی مسلسل آگے ہی بڑھتا رہا۔ اور پھر یوں جموکا کی بے وفائی سے تیانگ خان اور اس کے ساتھی پہاڑوں میں اس طرح پھنس گئے کہ چنگیز خان ان کا جیسے چاہے شکار کھیل سکتا تھا۔
نیمان قبیلے کی شکست
وہ سب اس کے گھیرے میں تھے۔ ایسے میں جموکا اپنے پانچ انتہائی قریبی ساتھیوں کو لے کر فرار ہوگیا۔ چنگیز خان نے نیمان قبیلے کے لوگوں کا قتل کرنا شروع کیا اور کرتے کرتے ان کے سردار تک کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ پھر ایک وقت آیا کہ اس کے سامنے قبیلے کے سردار تیانگ خان کی ماں گوربیسو لائی گئی۔ یہ عورت کہا کرتی تھی کہ اسے منگولوں سے بدبو آتی ہے۔ چنگیز خان نے اسے سزا سنانے کا فیصلہ کیا اور سزا یہ تھی کہ وہ چنگیز خان کی بیوی بنے گی۔ بہرحال ایک اور بڑا سردار تیانگ خان چنگیز خان سے لڑائی کے بعد مارا جا چکا تھا اور جموکا مفرور تھا۔
جموکا کی بدحالی
جموکا نے بھلے چنگیز خان کا خفیہ طور پر ساتھ دیا تھا، لیکن چنگیز خان جموکا پر اب اندھا بھروسہ کرنے پر تیار نہیں تھا۔ وہ اسے ہر قیمت پر اپنے قبضے میں لانا چاہتا تھا۔ ماڈرن ہسٹورین یہ بھی کہتے ہیں کہ جموکا چنگیز خان کا ڈبل ایجنٹ تھا۔ اور اب وہ اس ڈبل ایجنٹ کو اپنی کمزوری سمجھتے ہوئے ختم کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے چنگیز خان کے سپاہی اسے ہر جگہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ چنگیز خان نے جموکا کی گرفتاری پر ایک بڑے انعام کا بھی اعلان کر رکھا تھا۔ جموکا اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ ایک سال تک پہاڑوں میں دربدر پھرتا رہا۔
اور خانہ بدوش قبائل کے لوگوں کو لوٹ مار کر کے اپنی گزر بسر کرتا رہا۔ لیکن جب اس کے ساتھیوں کو پتا چلا کہ چنگیز خان نے جموکا کی گرفتاری پر انعام رکھ دیا ہے تو وہ لالچ میں آگئے۔ ایک رات جب جموکا کھانا کھا رہا تھا تو اس کے پانچ ساتھیوں نے اس پر حملہ کر دیا۔
جموکا کی گرفتاری
اور اسے باندھ کر چنگیز خان کے پاس لے آئے۔ انہیں چنگیز خان سے بڑے انعام کی توقع تھی۔ مگر ان کی خوشی غم میں بدل گئی۔ جب چنگیز خان نے انہیں انعام دینے کی بجائے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔اصل میں چنگیز خان کو ان لوگوں سے سخت نفرت تھی جو اپنے آقا سے وفاداری کا حلف توڑتے ہیں اور غداری کرتے ہیں۔ چنانچہ اس نے انعام کے لالچ میں اپنے سردار کو پکڑوانے والوں کو قتل کروا دیا۔ پھر وہ جموکا کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کے بچپن کا بلڈ برادر، ساتھ کھانے پینے اور سونے والا جموکا، رسیوں میں بندھا ہوا اس کے سامنے پڑا تھا۔
جموکا کو دوستی کی پیشکش
چنگیز خان نے جموکا سے کہا؛ ہم دونوں کو قسمت ایک بار پھر قریب لے آئی ہے تو کیوں نہ ہم پھر سے ایک ہو جائیں۔ لیکن جموکا کے جواب نے چنگیز خان کو حیران کر دیا۔ جموکا نے کہا ‘جیسے آسمان میں صرف ایک سورج رہ سکتا ہے اسی طرح منگولوں میں بھی ایک ہی حکمران ہو سکتا ہے۔ اگر میں زندہ رہا تو میں تمہارے لئے ہمیشہ مصیبت بن کر رہوں گا۔ اس لئے بہتر ہے تم مجھے قتل کر دو۔ ہوں بس مجھے ایسی موت دینا جس میں میرا خون نہ بہے۔ پرانی کتابوں میں لکھا ہے کہ جموکا کو چنگیز خان نے گردن سے ریڑھ کی ہڈی توڑ کر قتل کروا دیا۔
چنگیز خان کے حکم پر جموکا کی آخری رسومات اچھے طریقے سے ادا کی گئی۔ لیکن ماڈرن ہسٹورین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ چنگیز خان نے اپنے بلڈ برادر سے دشمنی کی ایک ایکٹنگ کرکے اسے اپنے دشمنوں کے خلاف اصل دشمنوں کو کمزور کرنے کےلئے استعمال کیا۔ پھر کام نکل جانے کے بعد راز کھلنے کے ڈر سے چنگیز خان نے جموکا کا قتل کروا دیا۔ ماڈرن ہسٹورین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جموکا کا خون نہ بہانے والی کہانی بھی جھوٹ ہے۔ اور منگولوں نے اپنے بڑے لیڈر چنگیز خان کی عزت رکھنے کے لیے یہ کہانی خود سے گھڑی ہے۔ اصل میں تو جموکا کو بے دردی سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے قتل کیا گیا تھا۔

جموکا کی موت
کہتے ہیں جموکا نے مرنے سے پہلے چنگیز خان سے یہ آخری الفاظ کہے تھے۔” میں تاریک راتوں میں آکر تمہیں ستاؤں گا، تمہاری نیندیں برباد کردوں گا” بہرحال قتل جیسے بھی ہوا لیکن جموکا اب نہیں رہا تھا۔ اونگ خان اور تیانگ خان جیسے بڑے سردار مر چکے تھے۔ چنگیز خان ہی اب منگولیا کا سب سے بڑا لیڈر تھا۔ 1206 میں وہ جگہ جہاں سے دریائے اونان کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ جہاں سے دریائے اونان نکلتا ہے۔ وہاں منگولوں کے تمام قبائل کا ایک اجتماع ہوا۔ اسے منگولوں کی زبان میں ‘قولتائی’ کہا جاتا تھا۔ اس اجتماع میں سفید رنگ کا ایک بڑا سا جھنڈا لہرایا گیا۔ جھنڈے پر 9 دمیں لہرا رہی تھی۔
سردار اعلی
اس اجتماع میں تمام منگول قبائل نے متفقہ طور پر چنگیز خان کو اس پورے ریجن کا سب سے بڑا خان مان لیا۔ اب وہ اس ریجن کا سب سے بڑا خان، خاقان یا بادشاہ بن گیا تھا۔ اس دوران اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کے نیلے آسمان کے دیوتا نے اسے پوری دنیا پر حکومت کے لیے چن لیا ہے۔ اس کا اگلا ٹارگٹ وہی ملک تھا جس نے چند برس پہلے اسے عام کمانڈر کا خطاب دیا تھا۔ چین ، وہی چین جس کے حکمران خود کو منگولوں سے برتر قوم سمجھتے تھے۔ اب منگولوں کو چنگیز خان کی قیادت میں چینیوں سے لڑنا تھا۔ لیکن چینیوں کے پاس تو بارود تھا۔ چینیوں کی بندوقوں اور توپوں کا مقابلہ گھوڑوں کی ننگی، پشتوں پر بیٹھنے والے منگولوں نے کیسے کیا؟ چنگیز خان مسلمانوں کے لیے موت کا فرشتہ نہیں بلکہ مسیحا ثابت ہوا، کیا واقعی؟
جاری ہے۔۔۔۔۔
[1]Faisal Warraich. (n.d.). Www.youtube.com. Retrieved January 15, 2023, from https://www.youtube.com/watch?v=G7WbDbNVTjA&ab_channel=DekhoSunoJano