تعارف
چنگیز خان ایک دن ایک مقدس پہاڑ کی چوٹی پر غائب ہو گیا۔ جب وہ پلٹا تو اس نے اعلان کیا کہ اسے آسمان کے دیوتا نے چین فتح کرنے کی خوشخبری سنا دی ہے۔ لیکن چینیوں کے پاس تو بارود تھا؟ پھر چنگیز خان نے گھوڑوں پر بیٹھ کر بندوق اور بارود کا مقابلہ کیسے کیا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسے چین جیسی طاقتور سلطنت پر حملہ کرنے کی ضرورت ہی کیوں پڑی تھی؟
چینی سلطنت
چنگیز خان کے زمانے میں چین پر جن طاقتور خاندانوں کی حکومت تھی۔ ان میں “چن خاندان” کی سلطنت سب سے طاقتور تھی۔ انہیں چن دا گریٹ بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے حکمران آسمان کو خدا مانتے تھے اور خود کو آسمان کا بیٹا کہتے تھے۔ چنگیز خان کا بھی یہی دعوہ تھا کہ وہ آسمان ک بیٹا ہے۔ اور آسمان نے پوری دنیا کی حکومت اس کی جھولی میں ڈال دی ہے۔ ایک تو یہی ٹکراؤ کی وجہ تھی۔لیکن ایک اور بڑی وجہ تنازعہ یہ تھی کہ دونوں کے بارڈرز پر کھٹ پٹ چلتی رہتی تھی۔ اب چونکہ چینی سلطنت زیادہ طاقتور تھی۔ اس لیے زیادتی بھی اکثر انہی کی طرف سے زیادہ ہوتی تھی۔
سرحدی علاقوں میں چن سلطنت کے سپاہی، یعنی چینی سولجرز منگول علاقوں میں لوٹ مار کرنے آ جاتے۔ وہ منگولوں کی عزت اور مال بھی لوٹتے اور جاتے ہوئے منگول بچوں کو غلام بنا کر ساتھ بھی لے جاتے تھے۔ دوسری طرف منگولوں اور تاتاریوں کے لشکر بھی چینی علاقوں میں لوٹ مار کرتے رہتے تھے۔ ان دونوں وجوہات کی بنا پر دونوں ریاستوں میں کھٹ پٹ چلتی رہتی تھی۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ چن سلطنت میں نیا شہنشاہ آیا۔ یہ شہنشاہ منگولوں کو معمولی خانہ بدوش سے زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ اس نے چنگیز خان کو ایک پیغام بھیجا۔ پیغام یہ تھا کہ وہ چینی شہنشاہ یعنی چن سلطنت کے شہنشاہ کی اطاعت قبول کر لے۔
چنگیز خان نے پیغام سنا، اس طرف منہ کیا جدھر چین ہے اور زور سے تھوک دیا۔ پھر وہ اپنے گھوڑے پر کود کر سوار ہوا اور ایک طرف نکل گیا۔ اس کا یہ قدم چن سلطنت کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ 1211 میں اس نے اسی مقصد کے لیے اپنے قبائل کو جمع کیا۔ عورتیں،مرد اور بچے الگ الگ گروپس میں آسمان کے دیوتا سے دعائیں مانگنے لگے۔ لیکن چنگیز خان ان دعاؤں میں شامل نہیں تھا۔وہ کہاں تھا؟
چین پر حملہ
منگولیا میں گورکھی تیرالج نیشنل پارک بہت خوبصورت پارک ہے۔ اس دل فریب پارک کی خوبصورت اور بلند پہاڑی برقان قالدون پر چنگیز خان آسمان کے دیوتا سے فتح مانگنے چلا آیا تھا۔ منگولوں میں اس پہاڑی کو مقدس سمجھا جاتا تھا۔ چنگیز خان تین سے چار روز اسی پہاڑی پر رہا۔ جب وہ پہاڑی سے اترا تو اس کا چہرہ پر عزم تھا۔ اس نے اپنی فوج سے کہا ‘خوش ہو جاؤ، خوش ہو جاؤ نیلے آسمان نے ہم سے فتح کا وعدہ کر لیا ہے’۔
یہ خوشخبری سن کر منگول جوش میں بھر گئے۔ انہوں نے چن سلطنت پر حملے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ لیکن چینیوں کی آبادی اور اس لحاظ سے ان کی فوج بھی بہت بڑی تھی۔ دوسری طرف منگولوں کے مقابلے میں چینیوں کی فوج ماڈرن بھی بہت زیادہ تھی۔
چنگیز خان ایک گھاگ جرنیل کی طرح یہ باتیں سمجھ رہا تھا کہ صرف جوش و جذبے سے چینیوں کو ہرانا ممکن نہیں۔ اس لیے اس نے گہری چال چلی۔ اس نے چینی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ اس نے یوں کیا کہ چن سلطنت کے اہم علاقے منچوریا میں حکومت کے خلاف باغیانہ جذبات پائے جاتے تھے۔ چنگیز خان نے انہیں جذبات کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کیا اور منچوریا میں بغاوت کرادی۔ اب ظاہر ہے چینی فوج کا ایک حصہ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے منچوریا چلا گیا۔ جس سے مرکز میں فوج کی تعداد تھوڑی رہ گئی۔
چن سلطنت پر چڑھائی
یہی وہ وقت تھا جب مئی 1211 میں چنگیز خان نے چن سلطنت پر چڑھائی کر دی۔ اس کے پاس شروع میں 65000 کی فوج تھی۔ یہ فوج تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل صحرائے گوبی جو صرف ایک ماہ میں عبور کر گئی اور شمالی چین میں داخل ہو گئی۔ چنگیز خان کو فتح کی پختہ امید تھی۔ لیکن اپنی امیدوں کے بالکل الٹ چنگیز خان ناکام ہو گیا۔ کم فوج کے باوجود چینیوں نے کامیاب دفاع کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ چنگیز خان پوری طرح سے تیار نہیں تھا۔ وہ کھلے میدان میں لڑنے کی مہارت تو رکھتا تھا۔
لیکن چینیوں نے جس طرح اپنے شہروں جو قلعوں میں بدل کر محفوظ بنا رکھا تھا، یہ چنگیز خان کے لیے ایک نئی چیز تھی۔اس کے پاس قلعوں کی مظبوط دیواریں توڑنے کے لیے منجنیقیں یا دروازے گرانے کے آلات بھی نہیں تھے۔ اس لیے اسے ہر جگہ اندازے سے بہت زیادہ وقت لگ رہا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ اس دوران موسم سرما کا آغاز ہو گیا۔آسمان سے برستی برف میں جنگ تو ایک طرف رہی۔ غیر ملک میں پڑاؤ بھی ناممکن تھا۔ چنگیز خان فتح تو نہیں، لیکن ایک تجربہ حاصل کر کے پلٹ آیا۔
اسی ناکام حملے سے سیکھتے ہوئے اس نے پھر سے تیاری کی۔ 1213 میں چنگیز خان نے ایک دفعہ پھر چن سلطنت پر حملہ کر دیا۔ لیکن اس بار وہ پہلے سے زیادہ تیار تھا۔ اس کی فوج میں بھی زیادہ سپاہی تھے اور اس کی فتوحات کی رفتار بھی بہت تیز تھی۔ وہ علاقوں پر علاقے فتح کرتا ہوا چن سلطنت کے دارالحکومت ژونگ ڈو کی طرف بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ یہ شہر اسی جگہ قائم تھا جہاں آج چین کا دارالحکومت بیجنگ واقع ہے۔چن سلطنت چنگیز خان کا مقابلہ تو کر رہی تھی لیکن حقیقت یہ تھی کہ اس بار ان کے پاس اتنے بڑے منگول لشکر کے مقابلے کے لیے بھرپور وسائل اور ول ٹرینڈ آرمی کی مناسب تعداد موجود ہی نہیں تھی۔
لیکن چینی کمانڈرز نے یہ کیا کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے غریب کسانوں کو بھرتی کرنا شروع کر دیا۔ ان کسانوں کو پیدل فوج کا حصہ بنایا گیا۔ ان کی مدد کیلیے گھڑسوار دستے مقرر کئے گئے۔ جوکہ ٹرینڈ سولجرز تھے۔ اب میدان میں چینیوں کی فارمیشن یہ ہوتی تھی کہ درمیان میں کسانوں کی پیدل فوج، ہوتی تھی اور دائیں بائیں ٹرینڈ سولجرز گھوڑوں پر صفیں باندھے کھڑے ہوتے تھے۔
جنگی حکمت عملی
چنگیز خان یہ فارمیشن دیکھ رہا تھا۔اس نے اس کا ایک زبردست حل نکال لیا۔ وہ یہ کہ جب لڑائی شروع ہوتی تو منگول تیر انداز سامنے سے تیروں کی بارش کرکے کسانوں کی پیدل فوج کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیتے۔ اب رہ جاتے تھے دائیں بائیں کھڑے گھڑسوار دستے۔ تو جب تیروں کی بارش ہو رہی ہوتی تھی، تو منگولوں کے گھڑسوار دستے پہاڑوں کے پیچھے سے گھوم کر دشمن کی گھڑ سوار فوج پر عقب سے حملہ کر دیتے۔ جس سے چینی گھڑ سوار فوج گھیرے میں آکر ماری جاتی۔ میدان میں مقابلے کی ہی طرح، چنگیز خان نے اب قلعے بھی فتح کرنے کی بھی ایک زبردست ترکیب ڈھونڈ نکالی تھی۔
اس کے سپاہی پہلے کسی چینی قلعے کا محاصرہ کر لیتے۔ کچھ عرصے بعد وہ اپنا کھانا پینا وہی چھوڑتے اور پسپا ہونے کی اداکاری کرتے۔ چینی سپاہی منگولوں کو بھاگتے دیکھ کر شہر کے دروازے کھول کر منگولوں کا چھوڑا ہوا سامان اٹھانے یا ان کے تعاقب کرنے کے لیے باہر نکل آتے۔ منگول فوج اس کے لیے پہلے سے تیار ہوتی تھی۔ ان کے چھپے ہوئے دستے اور ان کی بھاگنے والی فوج پلٹ کر حملہ کر دیتی۔ اس ترکیب سے چینیوں کو قلعے کا دروازہ تک بند کرنے کی محلت نہیں ملتی تھی، اور منگول قلعوں پر قلعے فتح کرتے چلے جاتے۔ لیکن یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چین نے تو ایک عظیم الشان دیوار، دیوار چین بنا رکھی تھی۔ اور اس دیوار کا اہم ترین مقصد ہی یہ تھا کہ وہ حملہ آوروں کو روکے تو پھر چنگیز خان نے یہ رکاوٹ کیسے پار کی؟ دراصل تاریخ میں اس کے بارے میں دو نظریات ہیں۔
دیوار چین
ایک یہ کہ چنگیز خان نے دیوار چین کو بائی پاس کیا تھا۔ یعنی دیوار سے ہٹ کر ایک اور راستہ تلاش کیا تھا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ چن سلطنت کی جو فوج چنگیز خان سے لڑنے کے لیے آئی تھی وہ ایک کرائے کی فوج تھی۔ اور اسی لیے چنگیز خان نے انہیں آسانی سے اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ اور بھی کچھ مفروضے اس بارے میں لکھے گئے ہیں۔ مگر تاریخ کا ایک دوسرا مظبوط کہنا بھی ہے۔ وہ یہ کہ چنگیز خان کے دور میں دیوار چین اتنی بڑی تھی ہی نہیں کہ اسے پار کرنا ناممکن ہو۔ اس لیے چنگیز خان تھوڑی سی حکمت عملی کے ساتھ دیوار چین پار کر گیا تھا۔ پھر قلعوں پر قلعے فتح کرتا ہوا وہ چن سلطنت کے مرکز یعنی بیجنگ کے پاس پہنچ گیا۔ لیکن یہاں اس نے جو دیکھا وہ اس کے ہوش اڑا دینے کے لیے کافی تھا۔

چنگیز خان تو دریاؤں، خیموں، پہاڑوں اور چھوٹے چھوٹے عارضی قصبوں میں رہنے کا عادی تھا۔ اس نے راستے میں چین کے دوسرے شہر بھی دیکھے تھے۔ لیکن وہ بھی کوئی خاص بڑے نہیں تھے۔ جب وہ بیجنگ جیسے دنیا کے عظیم الشان شہر کے قریب پہنچا تو یہ منظر اس کے لیے کہانیوں جیسا تھا۔ اسے اپنے سامنے دور تک پھیلا عظیم شہر نظر آیا۔ میلوں تک پھیلے گھر دکھائی دئیے، اس نے دور سے بڑی بڑی عمارتوں کے ہیولے دیکھے۔ یہ سب دیکھ کر وہ حیرت اور سوچ میں گم ہو گیا۔ کیونکہ یہ شہر جتنا بڑا تھا، اتنا ہی محفوظ بھی تھا۔ اس کی سیکیورٹی بھی اتنی ہی اچھی تھی۔شہر کے اردگرد تیس میل لمبی اور چالیس فٹ اونچی دیواریں تھی۔
بیجنگ شہر کی مظبوطی
ان دیواروں پر 900 ٹاورز تھے۔ جن میں تیر انداز پہرے دار بیٹھتے تھے۔ جبکہ شہر کے 12 دروازے تھے۔شہر کے گرد تین اطراف میں خندق تھی۔ جس میں پانی بھرا رہتا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دارالحکومت کی حفاظت کیلئے شہر کے باہر بھی چار چھوٹے چھوٹے شہر بسائے گئے تھے۔ ان چاروں کے گرد بھی مظبوط دیواریں اور خندقیں موجود تھی۔ پھر ان چھوٹے شہروں کو زیر زمین راستوں کے ذریعے دارالحکومت سے ملا دیا گیا تھا۔
اردگرد موجود چھوٹے شہروں میں سے ہر شہر کے اندر چار ہزار سپاہی تھے۔ جبکہ دارالحکومت کے اندر بیس سے چوبیس ہزار فوجی ہوشیار رہتے تھے۔ یعنی شہر کی کل محافظ فوج کی تعداد چالیس ہزار تک پہنچ جاتی تھی۔ مگر ضرورت پڑنے پر اس فوج میں یک لخت چار لاکھ کا اضافہ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ ایسے کہ شہر کی کل آبادی چار لاکھ تھی۔ اور اسے کسی بھی وقت ایک حکم کے نتیجے میں جنگ میں شامل کیا جاسکتا تھا۔ ایک خانہ بدوش فوج کے لیے بیجنگ تقریباً ناقابل تسخیر شہر تھا۔ چنگیز خان بھی کچھ جائزے کے بعد بھانپ چکا تھا کہ اس کے لیے یہ شہر فتح کرنا ممکن نہیں۔
اس لیے اس نے شہر کو مسلسل محاصرے میں رکھ کر چن شہنشاہ جو دباؤ میں لانے کا فیصلہ کیا۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کی جاسکے۔ اس نے فوری طور پر پانچ ہزار سپاہیوں کو تعینات کرکے شہر کو جانے والے تمام راستے بند کر دئیے۔ پھر اس نے چن شہنشاہ کے پاس اپنا سفیر بھیج کر چند شرائط کے بدلے صلح کی پیشکش کی۔ لیکن شہنشاہ جو اپنے دفاعی نظام پر، سیکیورٹی سسٹم پر بہت مان تھا۔ اس نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ کیونکہ شہنشاہ جو یقین تھا کہ چنگیز خان اتنا محفوظ شہر فتح نہیں کر سکے گا۔ اور آخر کار موسم کی سختیاں اور وقت کا جبر اسے خالی ہاتھ پلٹ جانے پر مجبور کر دے گا۔ لیکن وہ ایک بات سے لاعلم تھا۔ وہ یہ کہ اس کا اپنا گورنر اس کے خلاف سازش کر رہا ہے۔ اور اس سازش کا ان ڈائریکٹ فائدہ چنگیز خان کو ہونے والا تھا۔
اندرونی سازش
چن شہنشاہ کا ایک گورنر چی چنگ، سلطنت پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بیجنگ کی طرف بڑھا اور منگول سپاہیوں سے بچتا بچاتا بیجنگ کے دروازے پر پہنچ گیا۔اس نے دروازے پر پہنچتے ہی بلند آواز میں کہا کہ منگول میرے پیچھے لگے ہیں مجھے بچاؤ مجھے بچاؤ۔ پہرے داروں نے شہر کے دروازے کھول دیئے۔ لیکن چی چنگ نے شہر میں داخل ہو کر شاہی محل پر دھاوا بول دیا۔ شہنشاہ اور اس کے محافظ اچانک حملے کا وار سہہ نہ سکے۔ یہاں تک کہ چن شہنشاہ جسے منگول گولڈن خان کہتے تھے۔ وہ بھی لڑائی میں مارا گیا۔ چی چنگ نے بجائے خود شہنشاہ بننے کے، کنگ میکر بننے جو ترجیح دی۔
اس نے چن خاندان کے ایک کمزور شخص کو تخت پر بٹھا دیا۔ اور خود چن سلطنت کا سپریم کمانڈر بن گیا۔اب چینی تخت پر ایک کٹھ پتلی حکمران بیٹھا تھا۔ لیکن آرڈر، کمانڈر ان چیف سپہ سالار کا چل رہا تھا۔لیکن اس ساری کاروائی کا فائدہ چنگیز خان کو صرف یہ ہوا۔ کہ چی چنگ نے جب چنگیز خان کے مقابلے کے لیے فوج کی کمان سنبھال لی تو وہ بیمار ہوگیا۔ لیکن وہ بیماری کی حالت میں بھی جنگ کرنے نکلا۔ وہ ایک چھکڑے پر لیٹ کر منگولوں کے خلاف چینی فوج کی کمان کرتا رہا۔
اس نے لگاتار دو دن تک منگول فوج کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔ لیکن اب اس کی صحت مسلسل بگڑ رہی تھی۔ بیماری نے اسے مزید لڑنے کی اجازت نہیں دی۔ چنانچہ تیسرے روز اس نے اپنے ایک کمانڈر جس کا نام ‘کاؤ’ تھا۔ اس کو منگولوں کے مقابلے پر بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن بھیجنے سے پہلے اس نے کاؤ کو دھمکی دی کہ اگر وہ شکست کھا کر لوٹا تو اس کا سر قلم کر دیا جائے گا۔ کاؤ موت کا یہ خوف دل میں لیے میدان جنگ میں گیا اور__ ہار گیا۔شکست کے بعد کاؤ شہر کے دروازے پر اپنی سر کٹی لاش الم تصور میں دیکھنے لگا۔ بہرحال کاؤ چپکے سے اس سے پہلے کے کسی کے علم میں آئے شہر میں اپنے وفاداروں کے ساتھ داخل ہوا۔ چی چنگ کے پاس گیا اور اس کی گردن اڑا دی۔ وہ ایک بیمار کنگ میکر کے ہاتھوں نہیں مرنا چاہتا تھا۔
خانہ جنگی
چی چنگ کی موت کی خبر پھیلتے ہی اس کے وفادار سپاہی غصے میں بھر گئے۔شہر میں خانہ جنگی شروع ہوگئی۔ دو روز تک دونوں گروپس کے سپاہی آپس میں ہی لڑتے رہے۔ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ لیکن پھر کٹھ پتلی شہنشاہ نے مداخلت کی اور کسی نہ کسی طرح دونوں گروہوں میں صلح کروا دی۔ صلح کے بعد کاؤ نیا سپریم کمانڈر بھی بنا دیا گیا۔ لیکن شہر کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے تھے۔ چنگیز خان کے محاصرے کی وجہ سے شہر میں کھانے پینے کی چیزیں کم پڑ گئ تھی۔ ایسے میں چنگیز خان نے شہنشاہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کیلئے ایک اور بڑا فیصلہ کیا۔
اس نے بیجنگ کو جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کیلئے پانچ ہزار فوج چھوڑ کر، باقی فوج کو مختلف ٹولیوں میں تقسیم کیا۔ پھر ان ٹولیوں کو چن سلطنت کے دوسرے شہروں میں لوٹ مار کے لیے بھیج دیا۔ مقصد یہ تھا کہ شہنشاہ کو جب اپنے شہروں کی تباہی کی خبریں ملیں گی تو وہ ہتھیار ڈال دے گا۔ دوسرا مقصد یہ بھی تھا کہ چنگیز خان کی فوج لے لیے راشن اور محاصرے سے تنگ آئے فوجیوں کے لیے اپنی ضروریات مہیا کرنے کا ایک سامان ہو سکے گا۔ تاہم ان ٹولیوں کو نئے شہر فتح کرنے کیلئے پرانی حکمت عملی بدلنا پڑی۔کیونکہ شہروں کو فتح کرنے کے لیے منگولوں کی بھاگنے والی چال اب کان نہیں کر رہی تھی۔
چنگیز خان کی حکمت عملی
چینی سپاہی اس تکنیک کو سمجھ گئے تھے۔ وہ منگولوں کے بھاگنے کے باوجود قلعوں سے باہر نہیں آتے تھے۔ اس لیے چنگیز خان نے بھی اپنی حکمتِ عملی بدلی۔ منگول فوج نے دیہات سے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر میدان جنگ میں لانا شروع کر دیا۔ ان چینی دیہاتی قیدیوں کو آگے کھڑا کر کے انہی کے ذریعے قلعوں کے دروازے توڑے جاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ دیواروں پر کھڑے پہرے دار ان لوگوں کو پہچان لیتے اور انہیں اپنے لوگ سمجھتے ہوئے ان پر حملہ کرنے سے ہچکچانے لگتے۔ بہت سے تو انکار بھی کر دیتے۔
چنانچہ یہ ترکیب زیادہ کامیاب رہی اور شہروں کے دروازے آسانی سے ٹوٹنے لگے۔ جب دروازہ ٹوٹ جاتا تو منگول فوج شہر میں داخل ہو کر اس پر قبضہ کر لیتی۔ جس کے بعد مفتوح شہر میں بے دردی سے لوٹ مار شروع ہو جاتی۔غلام اور لونڈیاں بنائی جاتی۔ سونے چاندی اور ریشم کے ڈھیر لگائے جاتے۔اور واپس جاتے ہوئے کھڑی فصلوں کو آگ لگا دی جاتی۔ یہ ساری خبریں چن شہنشاہ تک پہنچ رہی تھی۔ وہ زیادہ دیر تک اپنی سلطنت کو برباد ہوتے نہ دیکھ سکا۔ مقابلے کی ہمت تو اس میں نہیں تھی۔
لہذا اس نے چنگیز خان سے صلح کی درخواست کی۔ چنانچہ 1216 کے شروع میں صلح کا ایک معاہدہ ہوا۔معاہدے کی شرائط کے مطابق چن شہنشاہ کی بیٹی کو چنگیز خان سے شادی کرنا تھی۔ چن سلطنت منگولوں کو تین ہزار گھوڑے، ایک لاکھ سونے کی پلیٹس اور تین لاکھ گز ریشم بھی ادا کرنے کی پابند ٹھہری تھی۔ معاہدہ تو گیا لیکن اب اس پر عمل بھی ہونا تھا۔ تو عمل سے پہلے چنگیز خان نے یہ کیا کہ کچھ نرمی کر دی۔اور بیجنگ جانے والے چند راستے کھول دئیے۔ لیکن یہاں پر چینی شہنشاہ نے ایک فاش غلطی کی۔
چینی شہنشاہ کا فرار ہونا
چینی شہنشاہ نے محاصرے میں نرمی دیکھی تو موقع غنیمت جان کر وہ بیجنگ سے نکل بھاگا۔ اور جنوبی شہر کیفینگ میں چھپ گیا۔ یہ شہر بیجنگ سے بھی زیادہ محفوظ تھا۔ کیونکہ اس کی حفاظتی دیوار ایک سو بیس میل لمبی تھی۔ جبکہ بیجنگ کی حفاظتی دیوار صرف تیس میل طویل تھی۔ چنگیز خان جو شہنشاہ کے فرار کی خبر ملی تو وہ آگ بگولہ ہو گیا۔ اس نے شہنشاہ کے فرار کو معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا اور معاہدہ توڑ دیا۔ اس نے حکم دیا کہ اب بیجنگ کا سخت محاصرہ کیا جائے۔ محاصرے میں جو نرمی تھی وہ ختم ہوگئی۔ اور بیجنگ کو جانے والے کھلے راستے بند کر دئیے گئے۔
اس بار محاصرہ اس قدر سخت تھا کہ بیجنگ میں کھانے پینے کا سامان مکمل طور پر ختم ہوگیا۔ شہر کے لوگ بھوک سے تنگ آگئے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے مردے کھانے لگے۔ فوج کے بڑے بڑے کمانڈرز، جنرلز رات کی تاریکی میں شہر چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ بلکہ کچھ تو ایسے بھی تھے جو تنگ آکر چنگیز خان کی فوج کا حصہ بن گئے۔کہ کچھ اور نہ سہی تو پیٹ بھر کھانا تو ملے گا۔ لیکن سب ہی محافظ ایسے نہیں تھے۔ ان بدترین حالات میں بھی پہرے داروں نے منگول فوج کے دو بڑے حملے بری طرح پسپا کیے، ناکام بنائے۔
ان ناکام حملوں میں منگول فوج کو بھاری جانی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ تقریباً ایک سال سے جاری طویل محاصرے کے بعد صرف چینی شہری اور فوج ہی نہیں، منگول فوج بھی تنگ آچکی تھی۔ منگولوں کے پاس بھی خوراک کا ذخیرہ ختم ہو رہا تھا۔بیماریاں بھی پھیل رہی تھی۔ منگول سپاہی مرنے لگے تھے۔ لیکن منگولوں کو یہ فائدے بہرحال تھا۔ کہ وہ محاصرے میں نہیں تھے۔ اور ان تک کھانے پینے کا سامان پہنچنے کو راستے کھلے تھے۔ اسی دوران منگولوں نے ایک ہزار چھکڑوں کی ایک کھیپ پکڑلی۔
ان چھکڑوں پر دراصل کھانے پینے کا سامان لدا ہوا تھا۔ جو محاصرے میں آئے شہریوں کی مدد کے لئے اس شہنشاہ نے بھیجا تھا جو شہر سے فرار ہو چکا تھا۔ منگولوں نے یہ کھیپ لوٹ لی۔ اس خوراک سے انہوں نے اپنا پیٹ تو بھر لیا۔ لیکن ادھر بیجنگ کے خالی پیٹ محافظوں کو جب اس کی خبر ملی تو ان کے حوصلے ٹوٹ گئے۔ لیکن آفرین کہ انہوں نے پھر بھی ہتھیار نہیں ڈالے۔ اور آخری ہتھیار آزمانے کا فیصلہ کیا۔ اگرچہ یہ ہتھیار ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہی تھا۔ لیکن مجبور، لاچار اور مہینوں کے محاصرے سے تنگ پڑے محافظوں کے پاس اس کے علاوہ اور چارہ بھی کیا تھا؟ لیکن یہ ہتھیار تھا کیا؟
چینی بارود
چینیوں کے پاس اس وقت ایک ایسا ہتھیار تھا۔ جو دنیا میں شاید ہی کسی اور کے پاس ان دنوں ہو۔ یہ ہتھیار جنگ کا پانسا پلٹ سکتا تھا۔ لیکن چینیوں کی بدقسمتی کہ انہوں نے اس ہتھیار ہو بہتر طور پر استعمال کرنے کی کوئی ترکیب نہیں بنائی تھی۔ یہ ہتھیار تھا بارود۔ چینی 1215 میں بارود بنا بھی چکے تھے اور جنگوں میں توپوں اور بندوقوں کا استعمال بھی کر رہے تھے۔ لیکن چنگیز خان کی خوش قسمتی کہ ابھی ان بندوقوں اور توپوں کا ڈیزائن ابتدائی مراحل میں تھا۔ اس لیے ان کے نشانے نہ تو درست تھے اور نہ ہی یہ اتنی تباہی پھیلا رہے تھے۔ جتنی کہ دشمن کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کرنے کے لیے ضرورت تھی۔
شہر کے محافظوں نے جیسے تیسے کرکے یہ توپیں اور بندوقیں چالو حالت میں کی۔ اور پھر منگولوں پر فائر کھول دیا۔ یہ انسانی تاریخ میں فائر آرمز کا غالباً پہلا بڑا جنگی استعمال تھا۔محافظ منگولوں پر گولیاں اور گولے برسا رہے تھے۔ لیکن ان کے پاس بارود جلد ہی ختم ہوگیا۔ تو انہوں نے سونا چاندی پگھلا کر اس سے گولے بنانا شروع کر دیئے۔ لیکن یہ سارے ہتھیار کسی کام نہ آئے اور منگولوں کو وہ نقصان نہ پہنچا سکے، جو آج کل کے ماڈرن فائر آرمز پہنچا سکتے ہیں۔
نتیجہ یہ نکلا کہ چینی محافظ جو تھوڑی بہت ہمت جمع کیے بیٹھے تھے وہ بھی گنوا بیٹھے۔ ان کا شہنشاہ اور تمام بڑے جرنیل انہیں چھوڑ کر پہلے ہی جا چکے تھے۔ کھانے کے ذخیرے میں ایک دانہ نہیں تھا۔ دنیا کا عظیم ترین شہر بیجنگ ایک گھوسٹ ٹاؤن، بھوتوں کا اجڑا شہر بن چکا تھا۔ اس میں رہنے والے زندہ تو تھے۔ مگر مُردوں کی سی حالت میں رہ رہے تھے۔

بیجنگ کی فتح
تقریباً ڈیڑھ برس محاصرے میں رہنے کے بعد یکم جون 1215 کو محافظوں نے شہر کے دروازے کھول دیئے۔ اور ایک بپھرے ہوئے منہ زور طوفان کو اندر آنے کی دعوت دے دی۔ ایک سال سے باہر کھڑی منگول فوج جب اندر داخل ہوئی تو بہت تباہی مچائی گئی۔ کوئی گھر محفوظ رہا نہ ہی کوئی انسان۔ ساٹھ ہزار لڑکیوں نے منگولوں سے بچنے کیلئے خودکشی کرلی۔ منگولوں نے شہر کی ساری عبارت گاہیں جلا دیں۔ شہر کے گیٹس تباہ کردئیے، محلوں کے محل اور حویلیوں کی حویلیاں آگ کی نذر کر دیں۔
بیجنگ شہر اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں کتنے لوگ قتل ہوئے یہ تعداد آج بھی کسی کو معلوم نہیں۔ لیکن ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد لاکھوں میں ہے یا تین لاکھ کے اردگرد۔ منگولوں نے شہر میں لاشوں اور ہڈیوں کے مینار بھی بنائے۔ لاشیں اتنی تھی کہ ان کی چربی گلیوں میں پھیل گئی۔ اور چلنے والوں کے پاؤں پھسلنے لگے۔ بیجنگ کی فتح کے وقت چنگیز خان وہاں سے 361 کلومیٹر دور ڈولن نور کے علاقے میں تھا۔
چین سے واپسی
بارہ سو سولہ میں چنگیز خان منگولیا لوٹ آیا۔ اس کے ساتھ سونے، چاندی، قیمتی پتھروں، ریشم اور بےشمار قیمتی اشیاء کے خزانے تھے۔ ہزاروں بیل گاڑیوں میں لدا یہ سامان جب منگولیا پہنچنا شروع ہوا، تو منگولوں کی آنکھیں حیرت سے پھٹی جاتی تھی۔ کہتے ہیں اس سامان میں کچھ چیزوں کے رنگ ایسے تھے جو منگولوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اس کے علاوہ ہزاروں ڈاکٹرز، فنکار اور ہنرمند بھی غلام بنا کر منگولیا لائے گئے تھے۔
انہی لوگوں نے منگولوں کو آرٹ، کلچر اور جدید تہذیب سے روشناس کرایا۔ چنگیز خان نے چین میں تقریباً پانچ برس گزارے تھے۔ اس کی سب سے طاقتور سلطنت کا دارالحکومت اجاڑ کر رکھ دیا تھا۔ اور یہ وہی چنگیز خان تھا۔ جسے اسی سلطنت نے چند برس پہلے معمولی کمانڈر سے زیادہ اہمیت نہیں دی تھی۔ بیجنگ کیا اجڑا چن سلطنت کے خاتمے پر بھی مہر لگ گئی۔ اگرچہ یہ سلطنت تقریباً بیس برس مزید قائم رہی لیکن اب اس کی کمر ٹوٹ چکی تھی۔ چن سلطنت کے علاوہ چنگیز خان نے چین کی مغربی ژبا سلطنت کو بھی جھکا لیا تھا۔
چین کے ساتھ ہی ایک اور سلطنت ایغور بھی تھی۔ اس کے بادشاہ برچوق نے سمجھداری دکھائی اور کسی بھی جنگ سے پہلے چنگیز خان کی اطاعت قبول کر لی۔ اس کے بعد ایغور اور چینی لوگ بڑی تعداد میں منگول فوج میں شامل ہونے لگے۔ انہی لوگوں نے منگولوں کو منجنیقیں اور دوسرے جنگی آلات تیار کرنا سکھائے۔ انہی سے چنگیز خان نے جنگ کے جدید طریقے بھی سیکھے۔
منگول فوج کی طاقت میں اضافہ
منگول فوج کی طاقت میں ایک اضافہ تب ہوا۔ جب 1218 میں منگولوں نے وسطی ایشیا کی ایک ریاست کارا خطائی سلطنت کو فتح کرلیا۔ اس سلطنت میں رہنے والے ترک مسلمان جو حکومت کے ظلم سے تنگ تھے۔ وہ چنگیز خان کو اپنا مسیحا سمجھ کر منگول فوج میں شامل ہوگئے۔ چنگیز خان کی زندگی میں پورے چین پر منگولوں کی حکومت قائم نہیں ہوسکی تھی۔ خاص طور پر جنوبی چین کی سونگ سلطنت بالکل آزاد رہی۔ البتہ اس کے پوتے قبلائی خان کے دور میں منگولوں نے پورے چین پر قبضہ کر لیا تھا۔ مگر یہ ظاہر ہے چنگیز خان کی زندگی کے بعد کی بات ہے۔ مگر چنگیز خان نے اپنی زندگی میں ایک بڑی طاقتور اسلامی سلطنت کو تاخت وتاراج کر دیا تھا۔
یہ سلطنت کون سی تھی؟ چنگیز خان نے ایک طاقتور مسلمان سلطنت پر کیوں حملہ کیا؟ مسلمان زیادہ تعداد کے باوجود کیوں مقابلہ نہ کر سکے؟ اور وہ ایک سپہ سالار کون تھا جو چنگیز خان کے لیے برسوں درد سر بنا رہا؟اور آخر سرتوڑ کوششوں کے باوجود آج تک چنگیز خان کی قبر کا سراغ کیوں نہیں مل سکا؟
Your article gave me a lot of inspiration, I hope you can explain your point of view in more detail, because I have some doubts, thank you.
I appreciate you sharing this blog post.
I had a great time with that, too. Despite the high quality of the visuals and the prose, you find yourself eagerly anticipating what happens next. If you decide to defend this walk, it will basically be the same every time.
In addition, I had a wonderful time with that. In spite of the fact that both the narration and the images are of a very high level, you realise that you are anxiously expecting what will happen next. Regardless of whether you choose to defend this stroll or not, it will be essentially the same every time.
Fantastic site A lot of helpful info here Im sending it to some buddies ans additionally sharing in delicious And naturally thanks on your sweat
helloI really like your writing so a lot share we keep up a correspondence extra approximately your post on AOL I need an expert in this house to unravel my problem May be that is you Taking a look ahead to see you