ابن عساکر نے جلہمہ بن عرفطہ سے روایت کی ہے کہ میں مکہ آیا۔ لوگ قحط سے دوچار تھے۔ قریش نے کہا ابو طالب وادی قحط کا شکار ہے۔ بال بچے کال کی زد میں ہیں، چلئے (کعبہ چل کر) بارش کی دعا کیجئے۔ حضرت ابو طالب ایک بچہ ساتھ لے کر برآمد ہوئے، بچہ ابر آلود سورج معلوم ہوتا تھا۔ جس سے گھنا بادل ابھی ابھی چھٹا ہو۔ اس کے ارد گرد اور بھی بچے تھے۔ حضرت ابو طالب نے اس بچے کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے ٹیک دی، بچے نے ان کی انگلی پکڑ رکھی تھی۔ اس وقت آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا نہ تھا۔ لیکن (دیکھتے ہی دیکھتے) اِدھر اُدھر سے بادلوں کی آمد شروع ہوگئی، اور ایسی دھواں دھار بارش ہوئی کہ وادی میں سیلاب آگیا، اور شہر و بیاباں شاداب ہوگئے، بعد میں حضرت ابوطالب نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ ﷺ کی مدح میں کہا تھا۔
(وأبیض یستسقی الغمام بوجہہ
ثمال الیتامی عصمۃ للأرامل)
وہ ایسے روشن و منور ہیں کہ ان کے چہرے کی برکت سے بارش مانگی جاتی ہے یتیموں کے ماویٰ اور بیواؤں کے محافظ ہیں
گانے بجانے کی محفل سے محفوظ
حضرت ابو طالب کے مکان میں قیام کے دوران دو اہم واقعات پیش آئے۔ ایک یہ کہ ایک مرتبہ گرمی کے موسم میں مکہ میں ایک جگہ گانے بجانے کی محفل منعقد ہوئی تھی۔ آپ ﷺ نے اس محفل میں شرکت کی خاطر بکریوں کو ایک ساتھی چرواہے کے حوالے کیا، اور محفل کے مقام تک پہنچے جو چراگاہ سے دُور تھی۔ گرمی میں دور تک چل کر آنے سے آپ ﷺ بہت تھک گئے تھے، اور محفل ابھی شروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے آپ ﷺ ایک درخت کے سایہ تلے لیٹ گئے تو آنکھ لگ گئی جب بیدار ہوئے تو محفل ختم ہو چکی تھی۔ اس طرح آپ ﷺ اس محفل سرود میں شریک نہ ہو سکے، اور آئندہ بھی آپﷺ کو اس طرح کے لہو و لعب میں شرکت کرنے کا خیال تک نہ آیا۔
بت پرستی سے محفوظ
دوسرا واقعہ یہ کہ ایک مقام پر کھجور کے دو مقدس درخت تھے۔ جہاں بوانہ نامی بت نصب تھا۔ لوگ وہاں جا کر بت پر جانور بھینٹ چڑھاتے، سر منڈاتے اور دیگر مشرکانہ رسوم ادا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کو ہر سال اس تقریب میں شرکت کے لئے کہا جاتا، مگر آپ ﷺ انکار فرماتے۔ ایک مرتبہ چچاؤں اور پھوپھیوں کے اصرار پر آپ ﷺ وہاں گئے، لیکن بہت دیر تک نظروں سے اوجھل رہے ۔ جب دکھائی دئیے تو چہرے پر خوف کے آثار تھے پھوپھیوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ جب بھی اُس بُت کے قریب جانا چاہتا تو ایک سفید رنگ اور دراز قد شخص میرے قریب آتا اور کہتا کہ اے محمدﷺ پیچھے ہٹ جائیے اور بت کو ہاتھ مت لگائیے۔ اس واقعہ کے بعد آپ ﷺ کسی ایسی تقریب میں نہیں گئے جہاں بتوں پر بھینٹ چڑھائی جاتی تھی۔
ایک بار قبیلہ لہب کا ماہر قیافہ شناس مکہ آیا۔ سب لوگ اپنے بچوں کو اس کے پاس لے گئے۔ حضرت ابو طالب بھی اپنے بچوں کے ساتھ حضورﷺ کو اس کے پاس لے گئے۔ اس نے آپ ﷺ کو دیکھا اور پھر کسی کام میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آپ کو اپنے سامنے لانے کو کہا، لیکن حضرت ابو طالب نے اس کا تجسس دیکھ کر آپ ﷺ کو اپنے گھر بھیج دیا اس نے کہا کہ اس بچہ کو میرے پاس لاؤ خدا کی قسم وہ بہت بڑا آدمی بننے والا ہے۔
شام کا تجارتی سفر
حضرت ابوطالب کا پیشہ بھی اپنے آباؤاجداد کی طرح تجارت تھا۔ وہ سال میں ایک بار تجارت کی غرض سے ملک شام کو جاتے تھے۔ آپ ﷺ کی عمر تقریبَا بارہ برس تھی کہ حضرت ابوطالب نے حسب دستور شام کے تجارتی سفر کا ارادہ کیا ۔آپ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ چلنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ حضرت ابوطالب نے آپ ﷺ کی کم عمری دوران سفر مشکلات اور تکلیفوں یا کسی اور وجہ سے آپ ﷺ کو ساتھ نہ لے جانا چاہا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کو اپنے شفیق چچا سے اتنی محبت تھی کہ جب حضرت ابوطالب چلنے لگے تو آپﷺ ان سے لپٹ گئے۔ اب حضرت ابوطالب کے لئے بھی آپ ﷺ کو خود سے جدا کرنا ممکن نہ رہا اور آپ ﷺ کو بھی ساتھ لے لیا۔
مؤرخین کے مطابق اسی سفر شام کے دوران ایک عیسائی راہب بحیرہ کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ جس نے آپ ﷺ میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتب میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پالیں تو آپ ﷺ کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کردیا اور واپس مکہ آ گئے۔
بعض روایات کے مطابق جو تحقیق کے رو سے مجموعی طور پر ثابت اور مستند ہیں۔ جب آپ ﷺ کی عمر بارہ برس اور تفصیلی قول کے مطابق بارہ برس دو مہینے دس دن کی ہوگئی تو ابوطالب آپ کو ساتھ لے کر تجارت کے لئے ملک شام کے سفر نکلے۔ حضرت ابوطالب کا تجارتی قافلہ سرزمین شام میں بصریٰ شہر کی اہم تجارتی منڈی کے قریب پہنچا، تو وہاں پڑاؤ ڈال دیا۔ بصریٰ ملک شام کا ایک مقام اور حوران کا مرکزی شہر ہے۔ اس وقت یہ جزیرۃ العرب کے رومی مقبوضات کا دار الحکومت تھا۔وہیں قریب ہی ایک صومعہ (گرجا) تھا۔ جس میں جرجیس نامی ایک عیسائی عبادت گزار راہب رہتا تھا۔ جو بحیرہ راہب کے نام سے مشہور تھا۔ اہل تحقیق کے نزدیک بحیرا راہب موحد تھا۔ مشرک یا بت پرست نہ تھا وہ تمام آسمانی کتابوں کا عالم اور نبی آخرالزماں کی جو علامات آسمانی کتابوں میں مذکور تھیں ان سے بخوبی واقف تھا۔اس سے پہلے بھی بار ہا اس کے صومعہ (گرجا) پاس سے تجارتی قافلے گزرتے رہے تھے۔ مگر بحیرا کبھی کسی کی طرف ملتفت نہ ہوا تھا۔ لیکن جب اس بار حضرت ابوطالب کا کاروان تجارت اس کے گرجا کے پاس اترا تو اس راہب نے اپنی خانقاہ میں سے دیکھا کہ قافلہ والوں میں سے ایک نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے۔ بحیرا راہب اپنی بصیرت سے پہچان گیا کہ یہ نوجوان خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ بحیرا راہب خلاف معمول اپنی عبادت گاہ سے باہر نکل آیا، اور متجسسانہ نظروں سے ایک ایک کو دیکھنے لگا، پھر جیسے ہی آپ ﷺ کے پاس آیا تو دیکھتے ہی آپ ﷺ کا ہاتھ پکڑ لیا اور پکار اٹھا یہی ہے سردار دو جہانوں کا یہی ہے رسول پروردگار عالم کا جس کو اللہ جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گا۔
حضرت ابوطالب نے کہا آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا؟
بحیرا راہب نے بتایا جب آپ سب لوگ پہاڑ کی گھاٹی سے نکلے تو اس وقت میں اپنی عبادت گاہ سے آپ سب کی طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ اس نوجوان پر ابر سایہ کئے ہوئے ہے، پھر میں نے دیکھا کہ کوئی شجر و حجر ایسا نہ تھا جس نے سجدہ نہ کیا ہو، اور شجر و حجر نبی کے علاوہ کسی اور انسان کو سجدہ (تعظیم) نہیں کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں آپ (ﷺ) کو مہر نبوت کی وجہ سے بھی پہچان چکا ہوں، جو آپ کے کندھے کے نیچے کری (نرم ہڈی) کے پاس ہے، اور ہم انہیں اپنی کتابوں میں بھی پاتے ہیں۔
راہب یہ کہہ کر واپس ہوگیا اور بصد اشتیاق تمام قافلہ کے لئے کھانا تیار کرایا۔ جب کھانا تیار ہوا تو سب کھانے کے لئے حاضر ہوۓ مگر آپﷺ موجود نہ تھے۔ راہب کے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ آپ ﷺ اپنے اونٹ چرانے آس پاس نکل گئے ہیں۔ ایک آدمی بھیج کر آپ ﷺ کو بلایا گیا۔ سب لوگ جس درخت کے نیچے بیٹھے ہوۓ تھے وہاں کوئی سایہ دار جگہ آپ کے لئے بچی ہوئی نہ تھی۔ سایہ دار جگہ نہ ملنے کی وجہ سے آپ ﷺ دھوپ میں ہی بیٹھ گۓ تو درخت کی شاخیں آپ ﷺ پر جھک گئیں۔ بحیرہ ان سارے معاملات کو بڑی گہری نظر سے دیکھ رہا تھا۔اس نے حضرت ابوطالب سے حضور ﷺ کے رشتہ کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے۔ لیکن راہب نے کہا کہ اس کے علم کے مطابق اس لڑکے کا باپ زندہ نہیں ہے۔ حضرت ابو طالب نے کہا کہ حقیقت میں ان کے باپ زندہ نہیں ہیں۔
اس کے بعد بحیرا راہب نے حضرت ابوطالب سے کہا آپﷺ میں وہ تمام نشانیاں موجود ہیں جو آسمانی کتابوں میں اللہ کے آخری نبی کے متعلق بتائی گئی ہیں۔ اگر شام کے یہود و نصاری’ نے آپﷺ میں یہ نشانیاں پہچان لیں تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ آپﷺ کی جان کو نقصان نہ پہنچا دیں۔
چنانچہ بحیرہ کے مشورہ پر حضرت ابوطالب نے بعض غلاموں کی معیت میں آپﷺ کو مکہ واپس بھیج دیا۔ اس کے بعد حضرت ابوطالب پھر کبھی شام کے سفر میں آپ ﷺ کو ساتھ نہیں لے گئے، مبادا کہیں آپﷺ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔اسی سال حضرت عمر فاروقؓ کی ولادت ہوئی کہتے ہیں کہ جس کے نیچے بحیرہ راہب نے آپﷺ کو اور قافلہ قریش کو کھانا کھلایا تھا اسے صحابی درخت کہا جاتا ہے اور یہ آج بھی موجود ہے۔
مستند روایات سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ کا لڑکپن اور زمانہ شباب دور جاہلیت کے تمام اکل و شرب، لہو و لعب اور دوسری تمام ناپسندیدہ اقدار سے پاک رہا۔ باوجود اس کے کہ عرب معاشرہ سر تا پا بدکاری اور بےحیائی میں ڈوبا ہوا تھا اور ایسے تمام بد اعمال عرب معاشرہ میں نہایت ہی پسند کئے جاتے تھے۔
اللہ نے آپ ﷺ کی ذات پاک کو ان سے محفوظ رکھا۔ اس کھلی بدکاری کے ماحول میں آپ ﷺ کے ہم عمر نوجوان جب جوانی کی خرمستیوں میں ڈوبے ہوۓ تھے۔ آپ ﷺ ان کے عین الٹ طریق پر اپنی راست بازی اور پاکیزگی میں مکہ کے صالح ترین انسان کے طور پر سامنے آۓ۔ دوسری طرف ایسا کبھی نہ ہوا کہ آپ ﷺ شرک و گمراہی کے کسی فعل میں شریک ہوۓ ہوں۔ خانہ کعبہ کے طواف کے دوران جب مشرکین طرح طرح کے شیطانی اعمال و شرکیہ رسومات میں مبتلا ہوتے۔ آپ ﷺ ان سب سے الگ تھلگ اپنا طواف جاری رکھتے۔ اس دوران نہ صرف خود ایسی بد اعمالیوں اور شرک و بت پرستی سے دور رہتے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے سے روکتے۔ آپﷺ اپنی قوم قریش کے اس دین پر کبھی نہیں چلے جس کو آپ ﷺ کی قوم نے دین ابراھیمی ترک کرکے اپنا لیا تھا۔ اللہ نے آپ ﷺ کو قبل بعثت ہر قسم کی بےحیائی و بدکاری سے پاک صاف رکھنے کے ساتھ ساتھ ارتکاب شرک و گمراہی سے بھی محفوظ رکھا۔
جنگ فجار میں شرکت
آپ ﷺ کی عمر بیس سال تھی جب قبیلہ قریش اور قبیلہ قیس عیلان کے درمیان ایک بہت ہی زبردست جنگ ہوئی۔ یہ جنگ حرب الفجار کے نام سے مشھور ہے۔ بنی کنانہ بھی اس جنگ میں قریش کے اتحادی تھے۔ یہ جنگ چونکہ ان مقدس مہینوں میں لڑی گئی جن میں قتل و غارت کرنا فسق و فجور ناجائز اور حرام تھا۔ اس لئے اس جنگ کو حرب الفجار کا نام دیا گیا۔ قبیلہ قریش کے تمام ذیلی قبائل نے اس معرکہ میں اپنی الگ الگ فوجیں قائم کی تھیں۔ بنو ہاشم کے علمبردار آپ ﷺ کے چچا جناب زبیر بن عبدالمطلب تھے۔ جبکہ ان تمام قریشی فوجوں کی مشترکہ کمان حضرت ابوسفیانؓ کے والد اور حضرت امیر معاویہؓ کے دادا حرب بن امیہ کے ہاتھ میں تھی۔ جو رئیس قریش اور نامور جنگجو تھے۔
ابن ہشام کے مطابق بازار عکاز میں ہونے والا ایک قتل اس جنگ کی وجہ بنا، دونوں ہی فریقوں نے ایک دوسرے کو اس قتل کا ذمہ دار قرار دیا، بڑھتے بڑھتے یہ تنازعہ اتنا بڑھا کہ ان میں جنگ کی نوبت آگئی۔ چونکہ اس تنازعہ میں قریش خود کو برحق سمجھتے تھے، اور پھر خاندان کے ننگ و نام کا معاملہ بھی تھا۔ اس لئے آپ ﷺ بھی اپنے چچاؤں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہوۓ۔ لیکن آپ ﷺنے دوران جنگ کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا، بلکہ صرف اپنے چچاؤں کو تیر اٹھا اٹھا کر دیتے رہے. اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ جنگ ان مقدس مہینوں میں ہوئی جن میں جنگ کرنا حرام تھا. دوسری طرف ایک وجہ یہ بھی تھی کہ دونوں ہی فریق مشرک تھے۔ اس لئے اللہ نے آپ ﷺ کو اس بےمقصد قتل و غارتگری سے محفوظ رکھا۔ کیونکہ مومن کو قتال اور جہاد و جنگ و جدل کا حکم فقط اس لیے دیا گیا کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو اور اسی کا بول بالا ہو۔ جبکہ یہ جنگ محض نسلی و قبائلی نام و نمود کے لئے لڑی گئی جنگ شروع ہوئی، تو اول اول قبیلہ قیس عیلان کا پلہ بھاری رہا۔ لیکن دوپہر کے بعد بعد قریش بتدریج غالب ہوتے گئے، اور بلآخر قریش ہی فتح یاب ہوۓ۔ تاہم دونوں طرف کے بزرگوں کی کوشش سے دونوں قبائل میں صلح کی آواز اٹھی، اور یہ تجویز آئی کہ فریقین کے مقتولین گن لئے جائیں جدھر زیادہ ہوں ان کو زائد کی دیت دے دی جائے۔ چنانچہ اسی پر صلح ہوگئی اور یوں قتل و غارتگری کا یہ سلسلہ تھم گیا۔
معاہدہ حلف الفضول میں شرکت
معمولی معمولی باتوں پر لڑائیوں کا سلسلہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا۔ جس نے سینکڑوں گھرانے برباد کردیئے تھے اور قتل و سفاکی موروثی اخلاق بن گئے تھے۔ حرب الفجار کے بعد بعض صالح طبیعتوں میں اس بےمعنی جنگ و جدل سے بیزاری پیدا ہوئی، اور یہ خیال پیدا ہوا کہ جس طرح زمانہ سابق میں قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کے انسداد کے لیے فضل بن فضالہ فضل بن وداعہ اور فضل بن حارث نے ایک معاہدہ مرتب کیا تھا۔ جو انہی کے نام پر حلف الفضول کے نام سے مشہور ہوا۔ اسی طرح اب دوبارہ اس کی تجدید کی جاۓ (چونکہ ان سب کے نام میں فضل کا لفظ شامل تھا اس لئے معاہدہ کو حلف الفضول کہتے ہیں)۔ جنگ فجار سے جب لوگ واپس مکہ پہنچے تو آپ ﷺ کے چچا اور خاندان بنو ہاشم کے سردار جناب زبیر بن عبدالمطلب نے سب کے سامنے یہ تجویز پیش کی۔ چنانچہ خاندان بنو ہاشم، بنو زہرہ اور بنو تیم عبداللہ بن جدعان تیمی کے گھر میں جمع ہوۓ۔ وہ سن وشرف میں ممتاز تھا۔ وہاں یہ معاہدہ طے پایا کہ ہم میں سے ہر شخص مظلوم کی حمایت کرے گا اور کوئی ظالم مکہ میں رہنے نہ پاۓ گا۔
نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اس معاہدہ کے وقت میں بھی عبداللہ بن جدعان کے گھر حاضر تھا۔ اس معاہدہ کے مقابلہ میں اگر مجھ کو سرخ اونٹ بھی دیئے جاتے تو ہرگز پسند نہ کرتا، اور اگر اب زمانہ اسلام میں بھی اس قسم کے معاہدہ کی طرف بلایا جاؤں تو بھی اس کی شرکت کو ضرور قبول کروں گا۔اس معاہدے کا سبب یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ زبید کا ایک آدمی سامان لے کر مکہ آیا اور عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا۔ لیکن اس کا حق روک لیا اس نے حلیف قبائل عبدالدار مخزوم، جمح سہم اور عَدِی سے مدد کی درخواست کی لیکن کسی نے توجہ نہ دی۔ اس کے بعد اس نے جَبَلِ ابو قُبَیس پر چڑھ کر بلند آواز سے چند اشعار پڑھے جن میں اپنی داستانِ مظلومیت بیان کی تھی۔
اس پر جناب زبیر بن عبدالمطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار ومدد گار کیوں ہے؟
ان کی کوشش سے اوپر ذکر کئے ہوئے قبائل جمع ہوگئے۔ پہلے معاہدہ طے کیا اور پھر عاص بن وائل سے زبیدی کا حق دلایا۔ حلف الفضول کا یہ واقعہ حرب الفجار کے 4 ماہ بعد اور آپ ﷺ کی بعثت سے 20 سال پہلے پیش آیا۔ جسے قتل و غارتگری اور ظلم و ستم کی روک تھام میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل ہوا۔ اس لیے اس معاہدہ کو زمانہ جاہلیت کے بہترین معاہدہ کی حیثیت سے یاد رکھا گیا ہے۔
پیچھے آپ ﷺ کی نوجوانی کے زمانہ کے دو مشہور واقعات کا تذکرہ کیا گیا، اب آپﷺ کے دور شباب کے مذید حالات بیان کئے جائیںنگے۔
اللہ نے اپنے تمام انبیاء کو ساری زندگی شرک و گمراہی اور رسوم جاہلیت سے محفوظ رکھا۔ چنانچہ تمام ہی انبیاء کرام اپنی نبوت و رسالت سے پہلے بھی اپنے خاندان و قبیلہ اور قوم کے صالح ترین انسان قرار پاۓ۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام یا حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعات سے ظاہر ہے۔ اسی طرح نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ بھی اپنی نبوت و رسالت سے پہلے اپنے لڑکپن اور دور جوانی میں شرک و بت پرستی اور تمام مراسم شرک سے بلکل پاک اور منزہ رہے۔ آپ ﷺ کی نیکی خوش اطواری دیانت امانت اور راست بازی کی اس قدر شہرت ہوگئی تھی کہ لوگ آپ ﷺ کو نام لے کر نہیں بلکہ الصادق یا الامین کہہ کر پکارتے تھے۔
جیسا کہ ابن ہشام کی روایت میں ہے کہ پس رسول اللہ ﷺ اس حال میں جوان ہوۓ کہ اللہ تعالی آپ ﷺ کی حفاظت اور نگرانی فرماتے تھے، اور جاہلیت کی تمام گندگیوں سے آپ ﷺ کو پاک اور محفوظ رکھتے تھے۔ اس لِئے کہ اللہ تعالی کا ارادہ یہ ہوچکا تھا کہ آپ ﷺ کو نبوت و رسالت اور ہر قسم کی عزت و اکرام سے سرفراز فرماۓ۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ مرد کامل ہوگئے اور مروت و حسن خلق حسب و نسب حلم و بردباری و راست بازی اور صداقت و امانت میں سب سے بڑھ گئے، اور فحش و اخلاق رزیلہ (بری عادات و خصلت) سے انتہا درجہ دور ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ ﷺ الصادق الامین کے نام سے مشہور ہوگئے۔
حضرت زید بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں جب مشرکین مکہ بیت اللہ کا طواف کرتے تو اساف و نائلہ (دو بتوں کے نام) کو چھوتے تھے۔ ایک بار میں نے آپ ﷺ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کیا جب ان بتوں کے پاس سے گزرا تو ان بتوں کو چھوا آنحضرت ﷺ نے مجھ کو (ان بتوں کو چھونے سے) منع کیا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ دیکھوں تو سہی کہ چھونے سے ہوتا کیا ہے اس لئے دوبارہ ان کو چھوا آپﷺ نے پھر ذرا سختی سے منع کرتے ہوۓ فرمایا کیا تم کو منع نہیں کیا تھا۔ حضرت زیدؓ فرماتے ہیں اللہ کی قسم اس کے بعد کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو نبوت و رسالت سے سرفراز فرمایا اور آپ ﷺ پر اپنا کلام اتارا
(مستدرک حاکم.. جلد 3 صفحہ 216)
ایک مرتبہ (ایک دعوت میں) قریش نے آپ ﷺ کے سامنے کھانا لا کر رکھا۔ آپ ﷺ نے اس کو کھانے سے انکار کیا وجہ یہ تھی کہ قریش جانوروں کو غیراللہ کے نام پر ذبح کرتے تھے، اور آپ ﷺ کو بتوں کے چڑھاوے کھانے سے اپنی پاکیزہ طبیعت کی وجہ سے نفرت تھی۔خلاصہ یہ کہ تمام انبیاء کرام کی طرح آپ ﷺ بھی ابتداء سے ہی نہایت صالح طبیعت والے اور کفر و شرک اور ہر قسم کے فحشاء و منکر سے پاک اور منزہ تھے۔
مسز اینی بیسنٹ ہندوستان میں تھیو سوفیکل سوسائٹی کی پیشوا اور بڑی مشہور انگریز عورت ہے وہ لکھتی ہے پیغمبر اعظم ﷺ کی جس بات نے میرے دل میں اُن کی عظمت وبزرگی قائم کی ہے وہ اُن کی وہ صفت ہے جس نے اُن کے ہم وطنوں سے الامین (بڑا دیانت دار) کا خطاب دلوایا، کوئی صفت اس سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی اور کوئی بات اس سے زیادہ مسلم اور غیر مسلم دونوں کے لئے قابلِ اتباع نہیں۔ ایک ذات جو مجسم صدق ہو اُس کے اشرف ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے۔ ایسا ہی شخص اس قابل ہے کہ پیغامِ حق کا حامل ہو۔
لڑکپن میں رسول ﷺ کا کوئی معین کام نہ تھا البتہ یہ خبر متواتر ہے کہ آپﷺ بکریاں چراتے تھے۔ آپ نے بنی سعد کی بکریاں چرائیں اور مکہ میں بھی اہل مکہ کی بکریاں چند قیراط کے عوض چراتے تھے۔ جب جوان ہوئے تو آپ ﷺ کو حصول معاش کی فکر ہوئی۔ مکہ وادیٔ غیر ذی زرع میں واقع تھا۔ وہاں زراعت کرنے کا تو سوال ہی نہ تھا اس لئے آپ ﷺ نے اپنے آباو اجداد کی طرح تجارت کا ذریعہ اپنایا حضور ﷺ نے اپنے والد کے چھوڑے ہوئے سرمایہ کو تجارت میں لگایا اور ان میلوں میں شرکت کے لئے سفر بھی کئے۔ پیشہ تجارت میں آپ نے ہمیشہ امانت داری اور دیانت کو پیش نظر رکھا۔ آپ ﷺ کے ایک ساتھی عبداللہ بن ابی الحمسأ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آپﷺ سے ایک تجارتی معاہدہ کیا لیکن بات پوری طے ہونے سے قبل مجھے ایک ضروری کام یاد آیا اور میں نے آپﷺ سے کہا کہ آپ یہیں ٹھہریں میں ابھی آتا ہوں۔ وہاں جا کر کام میں ایسا مشغول ہو گیا کہ مجھے آپﷺ سے کیا ہوا عدہ یاد نہ رہا۔ اتفاقاً تین روز بعد میرا ادھر سے گزر ہوا تو میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ وہیں انتظار کر رہے ہیں، میں احساسِ شرمندگی کے ساتھ آپ ﷺ کی طرف گیا تو آپﷺ نے صرف اتنا فرمایا کہ تم نے مجھے زحمت دی اس لئے کہ میں تین دن سے اسی جگہ پر تمہارا منتظر ہوں۔
زمانہ جاہلیت میں قیس بن السائب مخزومی آپ ﷺ کے ساتھ شریک تجارت تھے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمدﷺ بن عبداللہ سے بہتر ساتھی نہیں پایا اگر ہم آپ کا سامان تجارت لے کر جاتے تو واپسی پر آپﷺ ہمارا استقبال کرتے اور خیر و عافیت پوچھ کر چلے جاتے۔ برخلاف اس کے اگر آپ ﷺ تجارتی سفر سے لوٹتے تو جب تک پائی پائی بے باق نہ کرتے اپنے گھر کو نہ جاتے۔ تجارت میں آپﷺ کی دیانت داری اور معاملہ فہمی کی شہرت دور دور تک پھیل چکی تھی۔
حضرت خدیجہؓ قریش کی دولت مند بیوہ خاتون تھیں۔ جنہیں عرب کے کئی نامور رئیسوں نے نکاح کا پیام دیا تھا۔ ان کے والد خویلد بن اسد نے بہترین تجارتی کاروبار ورثہ میں چھوڑا تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی تجارت جاری رکھی اپنا مالِ تجارت اُجرت یا شراکت پر تاجروں کے ہمراہ روانہ کرتیں۔ ابتدائی عمر میں چچا زاد بھائی اور مشہور عیسائی عالم ورقہ بن نوفل سے منسوب تھیں۔ لیکن شادی نہ ہوسکی 15 سال کی عمر میں ان کا پہلا نکاح ہند بن نباش سے ہوا جو ابو ہالہ کے نام سے مشہور تھے۔ ان سے دو بچے پیدا ہوئے جو بعد میں حضور اکرم ﷺ پر ایمان لائے۔ ابو ہالہ کے انتقال کے وقت حضرت خدیجہؓ 21 سال کی تھیں۔ آپ کا دوسرا نکاح عتیق بن عاید مخزومی سے ہوا جن سے ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ جس نے بعد میں اسلام قبول کیا عتیق بن عاید مخزومی بھی انتقال کرگئے۔ یکے بعد دیگرے دونوں شوہروں کے انتقال سے حضرت خدیجہؓ دل برداشتہ ہو گئی تھیں۔ مالی دولت کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے انہیں دولتِ حُسن سے بھی نوازا تھا۔ نہایت ذہین اور سلیقہ مند تھیں انہی خصائص کی وجہ سے وہ طاہرہ کے لقب سے مشہور تھیں۔
جب انہیں رسول اللہﷺ کی راست گوئی امانت اور مکارمِ اخلاق کا علم ہوا تو انہوں نے ایک پیغام کے ذریعے پیش کش کی کہ آپ ان کا مال لے کر تجارت کے لئے ملک شام تشریف لے جائیں۔ وہ دوسرے تاجروں کو جو کچھ دیتی ہیں اس سے بہتر اجرت آپ کو دیں گی۔ آپ ﷺ نے اپنے چچا سے مشورہ کرکے یہ پیش کش قبول کرلی اور ان کا مال لے کر ملک شام تشریف لے گئے۔ اس سفر میں حضرت خدیجہؓ کے ایک غلام میسرہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ جو آپ ﷺ کے اخلاق و عادات دیکھ کر آپ ﷺ کے گرویدہ ہوگئے۔ آپ ﷺ سفر سے مکہ واپس تشریف لائے تو حضرت خدیجہؓ نے اپنے مال میں ایسی امانت وبرکت دیکھی جو اس سے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔ مال کی خرید و فروخت کا حساب آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو دیا تو منافع دوگنا سے زیادہ تھا۔ حضرت خدیجہؓ نے بھی طے شدہ معاوضہ کا دوچند آپ کو دیا یعنی بجائے چار اونٹ کے آٹھ اونٹ معاوضہ میں دیئے۔
ادھر ان کے غلام مَیْسَرہ نے آپ ﷺ کے شیریں اخلاق، بلند پایہ کردار، موزوں اندازِ فکر، راست گوئی اور امانت دارانہ طور طریق کے متعلق اپنے مشاہدات بیان کئے، تو حضرت خدیجہؓ کو اپنا گم گشتہ گوہرِ مطلوب دستیاب ہوگیا۔ حضور ﷺ کی عمر اس وقت 25 سال ہوچکی تھی اور حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیس سال تھی۔ حضرت خدیجہؓ نے حضور ﷺ کی ستودہ صفات سے متاثر ہوکر خود ہی اپنی سہیلی نفیسہ بنت منیہّ کے ذریعہ آپ کی خدمت میں نکاح کا پیغام بھیجا۔ حضور ﷺ نے اپنی رضا مندی ظاہر کی اور اپنے ہم عمر چچا اور دودھ شریک بھائی حضرت حمزہؓ سے ذکر کیا۔ جنہوں نے اہلِ خاندان سے مشورہ کرکے خود ہی جا کر پیام منظور کرلیا۔ چنانچہ آپ ﷺ کا حضرت خدیجہؓ سے نکاح ہوا جس میں حضرت خدیجہؓ کی جانب سے ان کے چچا عمرو بن اسد اور حضور ﷺ کی جانب سے حضرت ابو طالب، حضرت حمزہؓ، حضرت ابوبکرؓ اور سردارانِ قریش شریک تھے۔ مہر بہ اختلاف روایات 20 اونٹ، 400 دینار یا 500 درہم قرار پایا۔
یہاں اس بات کی صراحت ضروری ہے کہ عام روایت کی بموجب نکاح کے وقت حضرت خدیجہؓ کی عمر چالیسں سال بتائی جاتی ہے۔ لیکن بین الاقوامی شہرت کے حامل اسکالر اور سیرت نگار ڈاکٹر محمد حمید اللہ نے اپنی کتاب رسول اکرم ﷺ کی سیاسی زندگی میں محمد بن حبیب بغدادی مصنف کتاب المحبّر کے حوالہ سے 28 سال بتائی ہے۔
اٹھائیس سال کی مزید تائید الزرقانی کے بیان سے بھی ہوتی ہے۔ وہ القسطلانی کی کتاب المواہب کی مشہور شرح المغلطائی کے حوالہ سے لکھتے ہیں، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ 28 سال کی تھیں۔ جیسا کہ المغلطائی اور دوسروں نے بیان کیا ہے۔ (الزرقانی جلد 1)
سب سے زیادہ وقیع بات تو یہ ہے کہ ابن سعد (متوفی ۲۳۰ہجری) نے عبداللہ بن عباس کی سند سے روایت لکھی ہے کہ خدیجہؓ کی عمر جس دن رسول اکرم ﷺ نے ان سے نکاح کیا 28 سال تھی .(طبقات جلد ۸ فی النساء)
نکاح کے بعد حضور ﷺ چند دن بنی ہاشم کے محلہ میں گزار کر حضرت خدیجہؓ کے مکان میں آگئے۔ حضرت خدیجہؓ نے آپ کی خدمت کے لئے ایک غلام زید بن حارثہؓ کو پیش کیا۔ جو اس وقت پندرہ سال کے تھے اور جنہیں بچپن میں ڈاکوؤں نے عُکّاظ کے بازار میں حکیم بن حزام کے ہاتھ فروخت کردیا تھا، اور بعد میں انہوں نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہؓ کی نذر کیا تھا۔ کچھ عرصہ بعد زیدؓ کے باپ کو معلوم ہوا کہ زید زندہ ہیں تو باپ اور چچا دونوں نے حضورﷺ کی خدمت حاضر ہو کر انہیں ان کے حوالے کرنے کی درخواست کی۔ جس پر حضور ﷺ نے زیدؓ سے فرمایا کہ تمہارے باپ اور چچا تمہیں لینے آئے ہیں۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ چاہو تو ان کے ساتھ اپنے وطن لوٹ جاؤ چاہو تو میرے ساتھ رہو۔ اس پر زیدؓ نے اپنے باپ اور چچا کے ساتھ جانے کے مقابلہ میں حضور ﷺ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔
اس کے بعد حسب دستور حضور ﷺ زیدؓ کو ساتھ لے کر حرم کعبہ میں آئے اور حطیم کے پاس جا کر اعلان فرمایا۔ لوگو گواہ رہنا کہ زید آزاد ہے اور آج سے وہ میرا بیٹا ہے۔ یہ اعلان سُن کر اُن کے باپ اور چچا بہت خوش ہوئے اور اپنے وطن واپس لوٹ گئے۔ حضرت زیدؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔
حضرت خدیجہؓ پہلی خاتون تھیں جن سے رسول اللہ ﷺ نے شادی کی اور ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔ حضرت ابراہیمؓ کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی بقیہ تمام اوّلاد انہی کے بطن سے تھیں۔ سب سے پہلے قاسمؓ پیدا ہوئے اور انہی کے نام پر آپ کی کنیت ابوالقاسم پڑی۔ پھر حضرت زینبؓ رقیہؓ اُم کلثومؓ فاطمہؓ اور عبداللہؓ پیدا ہوئے۔ عبداللہؓ کا لقب طیب اور طاہر تھا۔ آپ ﷺ کے سب بچے بچپن ہی میں انتقال کر گئے۔ البتہ بچیوں میں سے ہر ایک نے اسلام کا زمانہ پایا۔ مسلمان ہوئیں اور ہجرت کے شرف سے مشرف ہوئیں، لیکن حضرت فاطمہؓ کے سوا باقی سب کا انتقال آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا۔ حضرت فاطمہؓ کی وفاتﷺ کے چھ ماہ بعد ہوا۔.
سیرت النبی: مولانا شبلی نعمانی
سیرت المصطفیٰ: مولانا محمد ادریس کاندہلوی
الرحیق المختوم اردو: مولانا صفی الرحمن مبارکپوری
تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)
✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے…..