آپ ﷺ کی عمر کا پینتیسواں (35) سال تھا کہ قریش نے نئے سرے سے خانہ کعبہ کی تعمیر شروع کی، وجہ یہ تھی کہ کعبہ صرف قد سے کچھ اونچی چہار دیوار کی شکل میں تھا۔ حضرت اسمعٰیل علیہ السلام کے زمانے ہی سے اس کی بلندی 9 ہاتھ تھی، اور اس پر چھت نہ تھی اس کی تعمیر پر ایک طویل زمانہ گزر چکا تھا۔ عمارت خستگی کا شکار ہوچکی تھی اور دیواریں پھٹ گئی تھیں۔ ادھر اسی سال ایک زور دار سیلاب آیا جس کے بہاؤ کا رخ خانہ کعبہ کی طرف تھا۔ اس کے نتیجے میں خانہ کعبہ کسی بھی لمحے ڈھے سکتا تھا۔ اس لئے قریش مجبور ہوگئے کہ اس کا مرتبہ و مقام برقرار رکھنے کے لئے اسے ازسرِ نو تعمیر کریں۔

ان ہی ایام میں ایک رومی جہاز طوفان میں گھِر کر شعیبہ (جدّہ کا قدیم نام) کی بندرگاہ سے ٹکرا کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ یہ اطلاع قریش کو ملی تو انہوں نے جہاز کے تختے کعبہ کی تعمیر کے لئے خرید لئے۔ طوفان میں بچنے والوں میں باقوم نامی ایک مصری معمار بھی تھا۔ اس نے تعمیر کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ مکہ میں بھی ایک بڑھئی تھا جس سے کام لیا جا سکتا تھا۔ اس مرحلے پر قریش نے یہ متفقہ فیصلہ کیا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر میں صرف حلال رقم ہی استعمال کریں گے۔ اس میں رنڈی کی اُجرت، سود کی دولت اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ سہولت کی خاطر انہوں نے تعمیر کا کام تمام خاندانوں میں تقسیم کیا۔ دروازہ والی دیوار کی تعمیر بنی عبد مناف اور بنی زہرہ کے ذمہ ہوئی۔ حجر اسود اور رکن یمانی کی درمیانی دیوار کی تعمیر بنی مخزوم و تیم کے سپرد ہوئی، اور پچھلی دیوار اٹھانے کا کام بنی سہم اور بنی حمج کے ذمہ ہوا۔ بنی عبدالدار، بنی اسد اور بنی عدی نے مل کر حطیم والا رخ بنانے کی ذمہ داری لی۔

نئی تعمیر کے لئے پرانی عمارت کو ڈھانا ضروری تھا، لیکن پُرانی عمارت کو گرانے سے لوگ ڈر رہے تھے۔ اس لئے کہ کچھ ہی عرصہ قبل یمن کا بادشاہ ابرہہ ہاتھیوں کو لے کر کعبہ کو ڈھانے کی نیت سے آیا تھا، تو اس کا برا انجام ہوا تھا۔ جسے دیکھنے والے لوگ موجود تھے۔ بالآخر ولید بن مغیرہ مخزومی نے ابتداء کی اور کدال لے کر یہ کہا اے اللہ ہم خیر ہی کا ارادہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد دو کونوں کے اطراف کو کچھ ڈھا دیا۔ جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی آفت نہیں ٹوٹی تو باقی لوگوں نے بھی دوسرے دن ڈھانا شروع کیا، اور جب قواعد ابراہیم تک ڈھا چکے تو تعمیر کا آغاز کیا۔

جب دیواریں حجر اسود نصب کرنے کے مقام تک اونچی ہوئیں تو قبائل میں سخت جھگڑا پیدا ہوا۔ جو چار پانچ روز تک جاری رہا۔ ہر قبیلہ چاہتا تھا کہ یہ اعزاز اس کو حاصل ہو، نوبت یہا ں تک پہنچی کہ تلواریں کھنچ گئیں۔ عرب میں یہ دستور تھا کہ جب کوئی شخص جان دینے کی قسم کھاتا تھا تو پیالہ میں خون بھر کر ان میں انگلیاں ڈبو لیتا تھا۔ اس موقع پر بھی بعض دعویداروں نے یہ رسم ادا کی۔ اس جھگڑے کی وجہ سے چار دن تک کام رُکا رہا۔ پانچویں دن قریش کے سب زیادہ معمر شخص ابو امیہ بن مغیرہ نے مشورہ دیا کہ کل صبح کو جو شخص سب سے پہلے باب بنی شیبہ سے حرم میں داخل ہو وہی ثالث قرار دے دیا جائے۔ سب نے یہ رائے تسلیم کی۔ دوسرے دن تمام قبائل کے سردار موقع پر پہنچے۔ اللہ کی مشیت کہ اس کے بعد سب سے پہلے رسول اللہﷺ تشریف لائے۔ لوگوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ پڑے کہ

 ھذا الأمین رضیناہ ھذا محمد ﷺ

 یہ امین ہیں ہم ان پر راضی ہیں یہ محمدﷺ ہیں

ذرا سوچیں اور غور کریں کہ جس عزت اور شرف کو ہر قبیلہ حاصل کرنا چاہتا تھا، اور خون سے بھرے ہوئے پیالے میں انگلیاں ڈال ڈال کر مرنے مارنے پر شدید وغلیظ قسمیں کھا چکے تھے۔ اُس عزت وشرف کے معاملہ کو حضور ﷺ کے سپرد کرنے میں سب مطمئن ہیں۔

یہ معاملہ حضور ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو حضورﷺ نے کندھے سے ردائے مبارک اتاری، اور اپنے دستِ مبارک سے حجر اسود اس کے اندر رکھا، پھر فرمایا کہ تمام قبائل اپنی چار بڑی جماعتوں میں سے ایک ایک نمائندہ چُن لیں۔ پہلی بڑی جماعت نے عتبہ بن ربیعہ، دوسری نے ابوزمعہ ، تیسری نے ابوحذیفہ بن مغیرہ اور چوتھی جماعت نے قیس بن عدی کو اپنا نمائندہ منتخب کیا۔ آپ ﷺ نے ان چاروں سے کہا کہ چادر کا ایک ایک کونہ تھام لیں اور اٹھا کر دیوار تک لے چلیں جہاں اسے نصب کرنا ہے۔ جب چادر موقع کے برابر آگئی تو آپ ﷺ نے حجر اسود کو اٹھا کر نصب کردیا۔ یہ گویا اشارہ تھا کہ کعبہ کی عمارت کا آخری تکمیلی پتھر بھی آپ ﷺ ہی کے ہاتھوں سے نصب ہوگا۔ تمام بوڑھے اور تجربہ کار سردارانِ قریش آپ ﷺ کی ذہانت، قوتِ فیصلہ اور منصف مزاجی کو دیکھ حیران رہ گئے، اور سب نے بالاتفاق احسنت ومرحبا کی صدائیں بلند کیں۔

جب خانہ کعبہ تعمیر ہوگیا تو بُت پرست اہل مکہ نے اس کی آرائش و زیبائش بھی شروع کی۔ کعبہ کی دیواروں پر عمارت کے اندر قسم قسم کی تصویریں بنائیں۔ جن میں فرشتے بھی تھے اور مختلف انبیاء کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام بھی تیروں سے فال دیکھتے دکھائے گئے۔ نیز بی بی مریم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصویریں بھی بنائی گئیں۔ اس کے علاوہ کعبہ کے اطراف تین سو ساٹھ بُت بھی رکھے گئے۔ جو تمام ہی قبائل کے تھے۔ کعبہ کو اس طرح ایک ہمہ مذہبی دیوستھان بنا دینے سے قریش کی ذہنیت کا پتہ چلتا ہے۔

بنو جرہم کی شہوت پرستی کو اتنا اُجاگر کیا گیا کہ خانۂ کعبہ کے مجرم بھی دیوتا بنا دئیے گئے۔ مثال کے طور پر نائیلہ بنت دیک ایک حسین عورت تھی۔ جو نیم عریاں لباس میں اپنے حُسن کی نمائش کرتی، اور اسی حالت میں کعبہ کا طواف بھی کرتی۔ اسے دیکھنے کے لئے اس کے پیچھے شیدائیوں کا ہجوم رہتا تھا۔ اس کے شیدائیوں میں ایک نوجوان سردار اساف بن بغی بھی تھا۔ دوران طواف ایک دن اساف بے خود ہوکر دست درازی سے بھی آگے بڑھ گیا۔ بنو جرہم کے لوگ جو شراب پئے ہوئے اور بد مست تھے، کعبہ کی اس بے حرمتی پر احتجاج کرنے کے بجائے اساف اور نائیلہ کے حسن و عشق کی داستان فخر سے بیان کرنے لگے، نہ صرف یہ بلکہ نائیلہ اور اساف کے مرنے کے بعد ان کے بت بنائے اور انہیں عشق و محبت کا مظہر قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ یہ بت چاہ زم زم کے کنارے نصب تھے۔

آنحضرت ﷺ اپنی قوم کی ان ذلیل حرکتوں کو دیکھتے تو بہت افسردہ اور غمگین ہوجاتے، اور ان سے بچنے کے لئے کسی پہاڑ کے دامن میں وقت گزارا کرتے۔ مکہ میں اس وقت چند اور سلیم الطبع افراد بھی تھے۔ جنہیں قوم کی یہ حرکتیں پسند نہ تھیں۔ وہ اس فکری ہم آہنگی کی بدولت حضورﷺ کے شریک صحبت رہتے۔ ان میں بنو تمیم کے حضرت ابو بکرؓ بھی تھے۔ جو حضور ﷺ سے دو سال چھوٹے تھے۔ وہ بھی اپنی قوم کی ذہنی گراوٹ پر افسوس کرتے۔ بعثت کے بعد ان لوگوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکرؓ نے اسلام قبول کیا۔ اسی طرح حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزامؓ بھی قریش کے ایک معزز فرد تھے، اور حضورﷺ سے پانچ سال بڑے تھے۔ لیکن فطری طور پر حضورﷺ سے ہم آہنگ تھے۔ فتح مکہ کے بعد انہوں نے اسلام قبول کیا۔ حضور ﷺ کے ایک دوست ضماد بن ثعلبہؓ بھی تھے۔ جن کا پیشہ طب اور جراحی تھا۔ بعثت کے بعد قریش نے آپ ﷺ کو مجنون مشہور کردیا، تو وہ آپ کے علاج کی خاطر ملنے کے لئے آئے۔ ان کے پوچھنے پر حضور ﷺ نے چند آیاتِ قرآنی کی تلاوت فرمائی۔ جنہیں سن کر وہ ایمان لائے۔ حضرت صہیب بن سنان رومیؓ اور حضرت عمار بن یاسرؓ بھی بت پرستوں سے نفرت کرتے تھے۔ مکہ کے دیگر ہم خیال حضرات میں حضرت عثمان بن عفان، زبیر بن عوام، عبدالرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، جعفر بن ابو طالب ،عبیداللہ بن جحش اور ابو سلمہ رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ مکہ سے باہر بنی غفار کے سردار ابو ذرؓ بھی ہم فکر تھے۔ عرب کے باہر سلمان فارسیؓ نے ایران سے تلاش حق میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اسلام قبول کیا۔ گو کہ کعبہ تین سو ساٹھ بتوں کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے کبھی بُتوں کے آگے سر نہیں جھکایا، اور نہ کبھی دیگر رسوم جاہلیت میں شرکت کی۔ قریش نے اس بناء پر کہ خود کو عام لوگوں سے ممتاز رہنا چاہئیے یہ قاعدہ قرار دیا تھا، کہ ایام حج میں قریش کے لئے عرفات جانا ضروری نہیں، اور یہ کہ جو لوگ باہر سے آئیں وہ قریش کا لباس اختیار کریں، ورنہ ان کو عریاں ہو کر کعبہ کا طواف کرنا ہوگا۔ چنانچہ اسی بناء پر طواف عریاں کا عام رواج ہوگیا تھا۔ لیکن آنحضرت ﷺ نے ان باتوں میں کبھی اپنے خاندان کا ساتھ نہ دیا۔ عہد جاہلیت میں عرب میں افسانہ گوئی کا عام رواج تھا۔ راتوں کو لوگ تمام کاموں سے فارغ ہو کر کسی مقام میں جمع ہوتے۔ ایک شخص جس کو اس فن میں کمال ہوتا تھا داستان شروع کرتا تھا۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے رات رات بھر سنتے تھے۔ بچپن میں ایک دفعہ حضور اکرم ﷺ نے بھی اس جلسہ میں شریک ہونا چاہا تھا، لیکن اتفاق سے راہ میں شادی کا کوئی جلسہ تھا، دیکھنے کے لئے کھڑے ہو گئے وہیں نیند آگئی اٹھے تو صبح ہو چکی تھی۔ ایک دفعہ اور ایسا ہی اتفاق ہوا، چالیس برس کی مدت میں صرف دو دفعہ اس قسم کا ارادہ کیا۔ لیکن دونوں دفعہ ہی توفیق الٰہی نے بچا لیا کہ اللہ کے نبی کی شان ان مشاغل سے بالاتر ہوتی ہے۔

آپ ﷺ نے شراب کو کبھی منہ نہ لگایا، آستانوں کا ذبیحہ نہ کھایا اور بتوں کے لئے منائے جانے والے تہوار اور میلوں ٹھیلوں میں کبھی شرکت نہ کی۔ آپ ﷺ کو شروع ہی سے ان باطل معبودوں سے اتنی نفرت تھی کہ ان سے بڑھ کر آپ کی نظر میں کوئی چیز مبغوض نہ تھی۔ حتیٰ کی لات وعزیٰ کی قسم سننا بھی آپ کو گوارا نہ تھا۔ تاہم لوگوں کا جو کام اچھا ہوتا اس میں شرکت فرماتے۔ مثلاً قریش جاہلیت میں عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے رسول اللہ ﷺ بھی یہ روزہ رکھتے تھے۔ یہ فطرت سلیم اور نیک سرشتی کا تقاضا تھا۔ لیکن ایک شریعت کبریٰ کی تاسیس کے لئے کچھ اور درکار تھا۔ اسی زمانہ میں دیگر افراد (ورقہ زید عثمان بن حویرث) تلاش حق میں سرگرداں تھے۔ ان کے دل میں خیال آیا کہ بتوں کے آگے سر جھکانا حماقت ہے چنانچہ سب مذہب حق کی تلاش کے لئے نکلے۔ لیکن ناکامی ہوئی ورقہ اور عثمان عیسائی ہوگئے اور زید یہ کہتے کہتے مر گئے اے خدا اگر مجھ کو یہ معلوم ہوتا کہ تجھ کو کس طرح سے پوجنا چاہیے تو میں اسی طریقے سے تجھ کو پوجتا۔

حضور اکرم ﷺ کو بھی ہمیشہ یہ فکر دامن گیر رہتی۔ طبیعت تنہائی کی طرف مائل ہونے لگی۔ حضرت خدیجہؓ آپ کے مزاج کو سمجھتی تھیں۔ آپ ﷺ اپنی بے چین فطرت کی آسودگی کے لئے شہر اور ان کے ہنگاموں سے دور پہاڑوں کی طرف نکل جانے لگے۔آپ ﷺ کے اب تک کے تأملات نے قوم سے آپ ﷺ کا ذہنی اور فکری فاصلہ بہت وسیع کردیا تھا۔

آپ ﷺ کو اپنی قوم کے لچر پوچ شرکیہ عقائد اور واہیات تصورات پر بالکل اطمینان نہ تھا۔ لیکن آپ ﷺ کے سامنے کوئی واضح راستہ معین طریقہ اور افراط وتفریط سے ہٹی ہوئی کوئی ایسی راہ نہ تھی جس پر آپ ﷺ اطمینان وانشراح قلب کے ساتھ رواں دواں ہو سکتے۔ چنانچہ آپ ﷺ کو تنہائی محبوب ہوگئی۔ جوں جوں آپ کی عمر چالیس سال کے قریب ہوتی گئی تنہائی اور خلوت نشینی بڑھتی گئی۔ مکہ سے تین میل دور واقع جبل حِرا ہے (جس کو آج کل جبل نور کہتے ہیں)۔ اس میں ایک غار غارِ حرا ہے حِرا کے لفظی معنی تلاش و جستجو کے ہیں۔ اس غار کا طول چار گز اور عرض پونے دو گز تھا۔ جس طرح بعض انبیائے ماسبق کی زندگی میں بعض پہاڑوں کی اہمیت ہے۔ اسی طرح حضور اکرمﷺ کی حیات طیبہ میں دو پہاڑ یعنی جبل نور (حرا) اور جبل ثور کو بھی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ جبل حِرا کی اس لئے کہ نبوت  سے قبل آپ ﷺ کا دور عبادت اسی پہاڑ پر گزرا تھا، اور غار ثور کی اس سبب سے کہ مکہ سے مدینہ ہجرت کرکے جاتے وقت آپ ﷺ نے تین دن وہاں قیام فرمایا تھا۔ سابق انبیا علیہم السلام میں حضرت آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام کی ملاقات جبل رحمت پر ہوئی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر ٹھہری۔ صفا اور مروہ کی پہاڑیوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور حضرت اسمعٰیل علیہ السلام سے خاص نسبت ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کوہِ طور سے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کوہِ زیتون سے خاص نسبت ہے۔

غارِ حرا کو بڑی فضیلت اس لئے حاصل ہے کہ حضور ﷺ نے اپنا دور عبادت یہیں گزارا اور یہیں حضرت جبریل علیہ السلام آپ ﷺ پر پہلی وحی لے کر آئے۔ یہ غار سطح زمین سے تقریباً دو ہزار فٹ کی اونچائی پر ہے۔ غار مستطیل شکل کا ہے اور قدرتاً کعبہ رخ ہے۔ اندر سے تقریباً چار گز لمبا، پونے دو گز چوڑا اور اتنا اونچا ہے کہ ایک آدمی کھڑا ہو کر آسانی سے نماز ادا کر سکتا ہے۔ آپ ﷺ غارِ حرا جا کر مہینوں قیام کرتے اور مراقبہ فرماتے۔ آپ ﷺ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے۔ وہ ختم ہو جاتا تو گھر تشریف لاتے اور پھر واپس جا کر مراقبے میں مصروف ہو جاتے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ آپ ﷺ غارِ حرا میں تحنّث یعنی عبادت کیا کرتے تھے۔ یہ عبادت کیا تھی؟

شرح بخاری میں ہے یہ سوال کیا گیا کہ آپ ﷺ کی عبادت کیا تھی؟

جواب یہ ہے کہ غور و فکر اور عبرت پذیری۔ یہ وہی عبادت تھی جو آپ ﷺ کے دادا ابراہیم علیہ السلام نے نبوت سے پہلی کی تھی۔ ستاروں کو دیکھا تو چونکہ تجلی کی جھلک تھی، چاند نکلا ہوا تو اور بھی شبہ ہوا، آفتاب پر اس سے زیادہ لیکن جب سب نظروں سے غائب ہو گئے تو بے ساختہ پکار اُٹھے میں فانی چیزوں کو نہیں چاہتا میں اپنا منہ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔

(سورۃ لانعام : ۷۹)

غارِ حرا میں آپ ﷺ کے دادا عبدالمطلب ماہِ رمضان میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ حضور ﷺ کی یہ کیفیت حضرت رقیہؓ کی ولادت کے بعد ہی سے شروع ہو چکی تھی۔ آپﷺ کا دور تحنُّث پانچ سالوں پر محیط ہے۔ پانچ برس کا زمانہ اسی شوقِ عبادت اور توجہ الی اللہ میں گزرا۔ مگر آخری چھ مہینے میں گویا آپ ﷺ ہمہ تن عبادت الہٰی اور غارِ حرا کی خلوت نشینی ہی میں مصروف رہے، اور اسی چھ مہینے میں رویائے صادقہ کا سلسلہ بلا انقطاع جاری رہا۔

مستند روایات اور سوانح نگاروں کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روحانی ترقیاتِ مدارج کے سلسلہ میں اولاً آپ ﷺ کو رویائے صادقہ (سچے خواب) پیش آنے لگے۔ رویائے صادقہ کو نبوت کا ۴۶ واں حصہ کہا جاتا ہے۔ بار ہا ایسے خواب نظر آتے جن کی بعد میں جلد تعبیر نکل آتی۔ پھر رفتہ رفتہ بعض وقت آپﷺ کو یہ محسوس ہونے لگا کہ کوئی درخت یا کوئی پتھر آپ ﷺ سے مخاطب ہے اور آواز دے رہاہے۔ رفتہ رفتہ یہ آوازیں بامعنی الفاظ کی صورت اختیار کرتی گئیں۔ چالیس سال ہونے کو آئے تو قدرت کی طرف سے وحی و الہام کے لئے تیار کیا جانے لگا، اور رسولِ اُمی ﷺ کو رب العالمین نے چاہا کہ رحمتہ للعالمین بنا دے۔

قمری سال کے حساب سے جب آپ ﷺ کی عمر چالیس سال ایک دن ہوئی (اور یہی سن کمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے) تو آثار نبوت چمکنا اور جگمگانا شروع ہوئے۔ اس حالت پر چھ ماہ کا عرصہ گزر گیا جب حراء میں خلوت نشینی کا تیسرا سال آیا تو اس وقت آپ ﷺ کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ بیشتر سیرت نگار کے مطابق 9 ربیع الاول 41 میلادی مطابق 12 فروری 610ء پیر کی شام غار حرا میں روح الامین (حضرت جبریل علیہ السلام) ظاہر ہوئے اور فرمایا

اے محّمَّدْﷺ بشارت قبول ہو آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبرئیل ہوں

دوسرا قول یہ ہے کہ یہ رمضان کا مہینہ تھا۔ تحقیق کے مطابق یہ واقعہ رمضان المبارک کی 21 تاریخ کو دوشنبہ کی رات میں پیش آیا۔ اس روز اگست کی 10 تاریخ تھی اور 610ء تھا۔ یہی قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے

شَهْرُ‌ رَ‌مَضَانَ الَّذِي أُنزِلَ فِيهِ الْقُرْ‌آنُ (۲/۱۸۵)

رمضان کا مہینہ ہی وہ (بابرکت مہینہ ہے ) جس میں قرآن کریم نازل کیا گیا اور ہم اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد دیکھتے ہیں

 إنَّا أَنزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ‌ (۹۷/۱)

یعنی ہم نے قرآن کو لیلۃ القدر میں نازل کیا

 معلوم ہے کہ لیلۃ القدر رمضان میں ہے اور صحیح روایات سے یہ ثابت ہے کہ لیلۃ القدر رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پڑتی ہے اور انہی طاق راتوں میں منتقل بھی ہوتی رہتی ہے۔

آیئے اب ذرا حضرت عائشہؓ کی زبانی اس واقعے کی تفصیلات سنیں جو نبوت کا نقطۂ آغاز تھا اور جس سے کفر وضلالت کی تاریکیاں چھٹتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ زندگی کی رفتار بدل گئی اور تاریخ کا رُخ پلٹ گیا۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ کے پاس فرشتہ آیا اور اس نے کہا پڑھو آپ ﷺ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپﷺ فرماتے ہیں کہ اس پر اس نے مجھے پکڑ کر اس زور سے دبایا کہ میری قوت نچوڑ دی۔ پھر چھوڑ کر کہا پڑھو میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ اس نے دوبارہ پکڑ کر زور سے دبایا پھر چھوڑ کر کہا پڑھو۔ میں نے پھر کہا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔اس نے تیسری بار پکڑ کر دبوچا پھر چھوڑ کر کہا

(۱) اِقْرَأْ بِاسْم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ (۲) خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ (۳) اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ (۴) الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ (۵) الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ

پڑھو اپنے پروردگار کا نام لے کر جس نے سب کچھ پیدا کیا اُس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا ہے پڑھو اور تمہارا پروردگار سب سے زیادہ کرم والا ہے جس نے قلم سے تعلیم دی انسان کو اُس بات کی تعلیم دی جو وہ نہیں جانتا تھا

(سورہ علق ا تا ۵)

اس غیر متوقع واقعہ سے آپ ﷺ گھبرا گئے۔ اس لئے کہ آپ کے گمان میں بھی نہ تھا کہ آپ ﷺ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ مارے خوف اورگھبراھٹ کے آپ ﷺ لرزتے اور کانپتے غارِ حرا سے نکلے اور پہاڑ سے اترنے لگے۔ درمیان میں پہنچے تو پھر آواز آئی اے محمدﷺ آپ اللہ کے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں۔ آپ ﷺ نے اپنا سر اُٹھا کر دیکھا تو جبریل علیہ السلام آسمان کے کنارے ایک آدمی کی شکل میں کھڑے ہیں۔ اس اعلان کے بعد جبریل علیہ السلام نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ آپ ﷺ اسی ڈری سہمی حالت میں سیدھے گھر پہنچے اور حضرت خدیجہؓ سے فرمایا مجھے چادر اوڑھا دو، مجھے چادر اڑھا دو۔ انہوں نے آپ ﷺ کو چادر اوڑھا دی یہاں تک کہ خوف جاتا رہا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت خدیجہؓ کو واقعے کی اطلاع دی اور فرمایا یہ مجھے کیا ہوگیا ہے؟ مجھے تو اپنی جان کا ڈر لگتا ہے۔

حضرت خدیجہؓ نے کہا قطعاً نہیں واللہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ رسوا نہ کرے گا۔ آپ ﷺ صلہ رحمی کرتے ہیں، درماندوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، تہی دستوں کا بندوبست کرتے ہیں، مہمان کی میزبانی کرتے ہیں اور حق کے مصائب پر اعانت کرتے ہیں۔ پھر حضرت خدیجہؓ آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد بھائی اور عیسائی عالم ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ جو توریت اور انجیل کے عالم تھے اور انجیل کی عربی میں کتابت کرتے تھے۔ وہ دور جاہلیت میں بُت پرستی سے بیزار ہو کر عیسائی بن گئے تھے۔ ان کی عمر زیادہ ہو چکی تھی اور بینائی بھی جواب دے چکی تھی۔ ان سے حضرت خدیجہؓ نے کہا بھائی جان آپ اپنے بھتیجے کی بات سنیں۔

ورقہ نے کہا بھتیجے تم کیا دیکھتے ہو؟

رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا بیان فرما دیا۔ اس پر ورقہ نے آپ سے کہا یہ تو وہی ناموس ہے جسے اللہ نے موسیٰ علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ کاش میں اس وقت توانا ہوتا، کاش میں اس وقت زندہ ہوتا، جب آپ ﷺ کی قوم آپ کو نکال دے گی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اچھا تو کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟

ورقہ نے کہا ہاں جب بھی کوئی آدمی اس طرح کا پیغام لایا جیسا تم لائے ہو تو اس سے ضرور دشمنی کی گئی اور اگر میں نے تمہارا زمانہ پالیا تو تمہاری زبردست مدد کرونگا۔ جب حضور ﷺ ورقہ بن نوفل سے رخصت ہونے لگے تو انہوں نے آپ ﷺ کے سرِ اقدس کو بوسہ دیا۔ اس کے بعد ورقہ جلد ہی فوت ہوگئے اور وحی کا سلسلہ بھی کچھ عرصے کے لئے رک گیا۔

جب غار حرا میں حضرت جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر حاضر ہوئے تو اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے زمین پر پاؤں مارا جس سے پانی نمودار ہوا انہوں نے حضور ﷺ کے سامنے خود وضو کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے بھی اسی طرح وضو کیا۔ اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام نے دو رکعت نماز چار سجدوں کے ساتھ پڑھائی اور آپ ﷺ نے اقتدا فرمائی۔ پہلی وحی کے نزول کے ساتھ ہی حضور اکرم ﷺ کو اپنے منصب اور مقام کا علم ہو چکا تھا۔ جناب ورقہ بن نوفل کے پاس آپ ﷺ کا تشریف لے جانا حضرت خدیجہؓ کی خواہش کے احترام کے ساتھ ساتھ تبلیغ کے آغاز کا مرحلہ بھی تھا۔ جس کے لئے قدرت نے جناب ورقہ بن نوفل کو ابتدائی کڑی بنایا۔ منصب نبوت کے علم کے بعد تصدیق کرنے والوں کی ضرورت تھی۔ یہ سعادت حضرت خدیجہؓ اور جناب ورقہ کے حصہ میں آئی۔ جب آپﷺ گھر لوٹے اور نزول وحی کا ذکر کیا تو حضرت خدیجہؓ نے دلجوئی میں آپ ﷺ کے اخلاق عالیہ بیان کئے تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہر آفت سے محفوظ رکھے گا۔ مزید کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں خدیجہؓ کی جان ہے آپ ﷺ بے شک اس کے نبی ہیں۔ بشارت ہو کہ اللہ آپ ﷺ کے ساتھ سوائے خیر کے اور کچھ نہیں کرے گا۔ جو منصب آپ ﷺ کے پاس آیا ہے وہ حق ہے یقیناً آپﷺ اللہ کے رسولِ بر حق ہیں۔

جناب ورقہ بن نوفل نے تصدیق بھی کی اور جذبۂ نصرت کی آرزو بھی۔ اس کے چند دنوں بعد جناب ورقہ کی وفات ہو گئی۔ چونکہ انہوں نےآپ ﷺ کی نبوت کی تصدیق بھی کی اور جذبۂ نصرت کی آرزو بھی اس لئے اکثر سیرت نگار آپ کو صحابی کے مرتبہ پر فائز سمجھتے ہیں۔ اللہ کے آخری رسولﷺ پر ایمان لانے والی پہلی خاتون آپ ﷺ کی شریک حیات حضرت خدیجہؓ ہیں۔ بعثت کے فوراً بعد حضرت خدیجہؓ اور چاروں صاحبزادیاں ایمان لے آئیں۔ حضرت خدیجہؓ روئے زمین کی پہلی مومنہ ہیں جو حضور ﷺ کی تیرہ سالہ مکی زندگی میں دس سال تک آپ ﷺ کی نہ صرف مونس و غمگسار بلکہ مشیر و شریک کار رہیں۔

بعثت کے دوسرے دن حضرت علیؓ نے رسول اکرم ﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیا ہے؟

آپ ﷺ نے فرمایا یہ اللہ کا دین ہے یہی دین لے کر پیغمبر دنیا میں آئے ہیں۔ میں تم کو اللہ کی طرف بلاتا ہوں اسی کی عبادت کرو۔ رات گزری اور دوسرے دن صبح وہ ایمان لے آئے اس وقت ان کی عمر آٹھ اور دس سال کے درمیان تھی۔

خانوادۂ نبوت کے تیسرے فرد جنہیں آزاد کردہ غلاموں میں اول المسلمین ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ وہ آپ ﷺ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ ہیں۔ جو قبیلہ بنوقضاعہ کے سردار حارثہ ابن شراجیل کے بیٹے تھے۔ سفر کے دوران ڈاکوؤں نے اغوا کرکے عکّاظ کے بازار میں حضرت خدیجہؓ کے بھتیجے حکیم بن حزامؓ کو فروخت کردیا تھا۔ انہیں نے اپنی پھوپھی کے حوالے کیا اور حضرت خدیجہؓ نے انہیں حضور ﷺ کی خدمت کے لئے مامور کیا۔ بعد میں حضرت زیدؓ کے باپ کو ان کی موجودگی کا علم ہوا تو وہ انہیں لینے آیا۔ مگر انہوں نے حضور ﷺ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ حضور ﷺ ان سے بہت محبت کرتے اور اپنا بیٹا کہا کرتے تھے اور وہ زید بن محمد کہلاتے تھے۔ تانکہ سورۂ احزاب میں حکم نازل ہوا کہ لوگوں کو اپنے باپوں کے ناموں سے پکارا کرو۔ ان کی پہلی شادی حضور ﷺ کی کنیز اُم ایمنؓ سے ہوئی۔ جن سے حضرت اُسامہؓ پیدا ہوئے۔ ان کے بعد حضور ﷺ کی پھوپھی زاد حضرت زینب بنت جحشؓ سے نکاح ہوا۔ لیکن تفاوت مزاج کی بنا پر طلاق ہو گئی۔ حضرت زیدؓ سریہ موتہ(۸ ہجری) میں شہید ہوئے۔ آپؓ وہ واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں آیا ہے۔

آزاد مردوں میں آپ ﷺ کے جگری دوست حضرت ابوبکر بن ابی قحافہؓ کو اول المسلمین ہونے کا شرف حاصل ہے۔ حضرت ابوبکرؓ مکہ کے دولت مند تاجر، ماہر انساب صائب الرائے اور فیاض فرد تھے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے جس کسی پر اسلام پیش کیا وہ اس سے کچھ نہ کچھ جھجکا بجز ابوبکرؓ کے انہوں نے اسلام قبول کرنے میں ذرہ برابر توقف نہیں کیا۔ ابن سعد نے لکھا ہے کہ جب وہ ایمان لائے تو ان کے پاس چالیس ہزار درہم تھے۔ انہوں نے اپنا سارا سرمایہ تبلیغ اسلام کے لئے وقف کردیا۔ ہر نازک لمحہ میں رفاقت کا حق ادا کیا۔ معراج کی صبح کفار کے پوچھنے پر بلا پس و پیش اس محیر العقول واقعہ کی تصدیق کی۔ ہجرت کے خطرناک سفر اور غار ثور میں ساتھ رہنے کی بدولت ثانی اثنین کہلائے۔ حضورﷺ نے آپ کو صدیق کے لقب سے نوازا۔ حضرت ابوبکرؓ کی تبلیغ سے عشرہ مبشرہ میں سے پانچ صحابی یعنی حضرت عثمان بن عفانؓ، حضرت زبیر بن عوامؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت طلحہ بن عبیداللہؓ نے اسلام قبول کیا۔.

سیرت النبی: مولانا شبلی نعمانی

سیرت المصطفیٰ: مولانا محمد ادریس کاندہلوی

الرحیق المختوم اردو: مولانا صفی الرحمن مبارکپوری

تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنھایہ)

✍🏻📜☜ سلســـلہ جـــاری ہــے…..

Categorized in:

History,

Last Update: August 5, 2022